صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
48. سورة الْفَتْحِ:
باب: سورۃ الفتح کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بُورًا هَالِكِينَ، سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ: السَّحْنَةُ، وَقَالَ مَنْصُورٌ: عَنْ مُجَاهِدٍ، التَّوَاضُعُ، شَطْأَهُ: فِرَاخَهُ، فَاسْتَغْلَظَ: غَلُظَ، سُوقِهِ: السَّاقُ حَامِلَةُ الشَّجَرَةِ وَيُقَالُ، دَائِرَةُ السَّوْءِ: كَقَوْلِكَ رَجُلُ السَّوْءِ وَدَائِرَةُ السُّوءِ الْعَذَابُ، تُعَزِّرُوهُ: تَنْصُرُوهُ، شَطْأَهُ: شَطْءُ السُّنْبُلِ تُنْبِتُ الْحَبَّةُ عَشْرًا أَوْ ثَمَانِيًا وَسَبْعًا فَيَقْوَى بَعْضُهُ بِبَعْضٍ فَذَاكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَآزَرَهُ: قَوَّاهُ وَلَوْ كَانَتْ وَاحِدَةً لَمْ تَقُمْ عَلَى سَاقٍ وَهُوَ مَثَلٌ ضَرَبَهُ اللَّهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ خَرَجَ وَحْدَهُ، ثُمَّ قَوَّاهُ بِأَصْحَابِهِ كَمَا قَوَّى الْحَبَّةَ بِمَا يُنْبِتُ مِنْهَا.
مجاہد نے کہا «بورا» کے معنی ہلاک ہونے والوں کے ہیں۔ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ «سيماهم في وجوههم» کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ پر سجدوں کی وجہ سے نرمی اور خوشنمائی ہوتی ہے اور منصور نے مجاہد سے نقل کیا «سيما» سے مراد تواضع اور عاجزی ہے۔ «اخرج شطأه» اس نے اپنا خوشہ نکالا۔ «فاستغلظ» پس وہ موٹا ہو گیا۔ «سوق» درخت کی نلی جس پر درخت کھڑا رہتا ہے، اس کی جڑ۔ «دائرة السوء» جیسے کہتے ہیں «رجل السوء.» ۔ «دائرة السوء» سے مراد عذاب ہے۔ «تعزروه» اس کی مدد کریں۔ «شطأه» سے بال کا پٹھا مراد۔ ایک دانہ دس یا آٹھ یا سات بالیں اگاتا ہے اور ایک دوسرے سے سہارا ملتا ہے۔ «فآزره» سے یہی مراد ہے، یعنی اس کو زور دیا، اگر ایک ہی بالی ہوتی تو وہ ایک نلی پر کھڑی نہ رہ سکتی۔ یہ ایک مثال اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہے۔ جب آپ کو رسالت ملی آپ بالکل تنہا بےیار و مددگار تھے۔ پھر اللہ پاک نے آپ کے اصحاب سے آپ کو طاقت دی جیسے دانے کو بالیوں سے طاقت ملتی ہے۔