Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
77. بَابُ الْخَيْمَةِ فِي الْمَسْجِدِ لِلْمَرْضَى وَغَيْرِهِمْ:
باب: مسجد میں مریضوں وغیرہ کے لیے خیمہ لگانا۔
حدیث نمبر: 463
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فِي الْأَكْحَلِ، فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ لِيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ، فَلَمْ يَرُعْهُمْ، وَفِي الْمَسْجِدِ خَيْمَةٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ إِلَّا الدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهِمْ، فَقَالُوا: يَا أَهْلَ الْخَيْمَةِ، مَا هَذَا الَّذِي يَأْتِينَا مِنْ قِبَلِكُمْ؟ فَإِذَا سَعْدٌ يَغْذُو جُرْحُهُ دَمًا فَمَاتَ فِيهَا".
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا کہ کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے کہ کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ بن زبیر کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے فرمایا کہ غزوہ خندق میں سعد (رضی اللہ عنہ) کے بازو کی ایک رگ (اکحل) میں زخم آیا تھا۔ ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک خیمہ نصب کرا دیا تاکہ آپ قریب رہ کر ان کی دیکھ بھال کیا کریں۔ مسجد ہی میں بنی غفار کے لوگوں کا بھی ایک خیمہ تھا۔ سعد رضی اللہ عنہ کے زخم کا خون (جو رگ سے بکثرت نکل رہا تھا) بہہ کر جب ان کے خیمہ تک پہنچا تو وہ ڈر گئے۔ انہوں نے کہا کہ اے خیمہ والو! تمہاری طرف سے یہ کیسا خون ہمارے خیمہ تک آ رہا ہے۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ یہ خون سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے بہہ رہا ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ کا اسی زخم کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 463 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:463  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ احکام مسجد کے متعلق بہت توسیع کا مسلک رکھتے ہیں، مذکورہ حدیث سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں زخمیوں بیماروں اور دیگر ضرورت مندوں کے لیے خیمہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس طرح کی ضرورت کے لیے مسجد کی خالی جگہ مناسب ہے۔
قائم کردہ عنوان کے دو اجزاء ہیں۔
بیماروں کے لیے خیمہ
دیگر ضروریات کے لیے خیمہ۔
روایت میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کے لیے مسجد میں خیمہ لگانے کا حکم دیا تھا، نیزمسجد میں ایک دوسرا خیمہ بھی لگا ہوا تھا جس میں بنو غفار قبیلے سے تعلق رکھنے والی رفیدہ نامی ایک صحابیہ اپنے متعلقین کے ساتھ مقیم تھیں۔
اس سے عنوان کے دونوں جز ثابت ہوگئے۔
واضح رہے کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کا خیمہ مسجد نبوی میں لگایا گیا تھا، کیونکہ بنو قریظہ نے جب حضرت سعد ؓ کو حکم بنانا منظور کر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد ؓ کو بلانے کے لیے بھیجا۔
چنانچہ وہ گدھے پر سوار ہو کر تشریف لائے۔
جب ان کی سواری مسجد کے قریب آئی تو رسول اللہ ﷺ نے انصار سے فرمایا:
اپنے سردار کا استقبال کرو۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4121)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زخمی ہونے کے بعد حضرت سعد ؓ کا قیام بنو قریظہ کے کسی محلے میں نہیں تھا، بلکہ انھیں کہیں دورسے سواری پر آنا پڑا۔
یہ سب قرآئن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حضرت سعد ؓ کا خیمہ مسجد نبوی میں تھا۔

جب حضرت سعد بن معاذ ؓ کے زخم کا خون بند نہیں ہو رہا تھا توانھوں نے اپنے رب کے حضوربایں الفاظ دعا فرمائی۔
اے اللہ!تو جانتا ہے کہ مجھے اس قوم (مشرکیبن)
سے جہاد کرنا سب سے زیادہ محبوب ہے جنھوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انھیں وطن سے نکال دیا۔
اے اللہ!میں یہ گمان کرتا ہوں کہ اب تونے ہمارے اور ان مشرکین کے درمیان جنگ کو ختم کردیا ہے، اگر قریش کی جنگ میں سے کوئی حصہ باقی ہو تو مجھے زندہ رکھ تاکہ میں ان سے تیری خاطر جہاد کروں اور اگر جنگ ختم ہو گئی ہے تو میرے زخم کا منہ کھول دے اور اسی سبب سے میری موت مقدر فرمادے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4121)
اللہ تعالیٰ نے حضرت سعد ؓ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔
چنانچہ وہ غزوہ بنو قریظہ میں فیصلے کے وقت تک زندہ رہے اس کے بعد اکحل کا وہ زخم کھل گیا جو وقتی طور پہ بند ہو گیا تھا اور اسی زخم کے سبب حضرت سعد ؓ کی شہادت کی موت کا شرف میسر آیا۔
اس سے متعلقہ دیگرتفصیلات کتاب المغازي اور کتاب المناقب میں بیان ہوں گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 463   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 711  
´مسجد میں خیمہ لگانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: غزوہ خندق (غزوہ احزاب) کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے، قبیلہ قریش کے ایک شخص نے ان کے ہاتھ کی رگ ۱؎ میں تیر مارا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا تاکہ آپ قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 711]
711 ۔ اردو حاشیہ:
➊ عیادت کے علاوہ ایک اور سبب علاج بھی تھا جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے کہ آپ ان کا علاج بھی کرتے رہے تھے، لیکن اس رگ میں زخم ہو جائے تو عموماً خون نہیں رکتا بلکہ موت یقینی ہو جاتی ہے۔
➋ اس حدیث سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی منقبت و مرتبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ مریض کی تیمارداری کرنا سنت ہے، اس سے اس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 711   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 202  
´مساجد کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ غزوہ خندق کے روز سیدنا سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے مسجد میں خیمہ لگوایا تھا، تاکہ قریب سے ان کی تیمارداری (بآسانی) کر سکیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 202]
202 لغوی تشریح:
«أُصِيبَ سَعْدٌ» «سعد» سے مراد سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں جو اوس کے سردار تھے۔ غزوہ خندق کے موقع پر ان کے بازو کی رگ (اکحل ہفت اندام رگ) میں دشمن کا تیر لگا اور خون جاری ہو گیا۔ خون رکنے میں نہیں آتا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰٰ سے استدعا کی کہ وہ انہیں اس وقت تک موت نہ دے جب تک وہ بنو قریظہ کا انجام نہ دیکھ لیں۔ اسلامی لشکر نے ان کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ خون بہنا بند ہو گیا۔ پھر جب بنو قریظہ نے ان کو حکم بنایا کہ جو وہ فیصلہ کریں ہمیں منظور ہے۔ جب بنو قریظہ ان کے فیصلہ کے مطابق گڑھیوں سے نیچے اتر آئے اور ان کے قابل جنگ مردوں کو قتل کر دیا گیا تو خون دوبارہ جاری ہو گیا، یہاں تک کہ وفات پا گئے اور ان کی وفات غزوہ خندق میں تیر لگنے کے ایک ماہ بعد ہوئی۔ اور غزوہ احزاب شوال 5 ھ میں پیش آیا۔ اس معرکہ میں قریش، غطفان وغیرہ قبائل یہودی سازش سے مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہو گئے تھے اور سب نے مل کر مدینے کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ مسلمانوں کو جب ان لوگوں کی سازش کا علم ہوا تو انہوں نے مدینے کی شمالی جانب خندق کھود لی۔ محاصرے نے پچیس 25 روز تک طول کھینچا۔ پھر ناکام و نامراد ہو کر واپس لوٹ گئے۔
«فَضَرَبَ عَلَيْهِ» خیمہ اس کے لئے نصب کیا۔
«لِيَعُودَهُ» تاکہ ان کی تیمارداری کر سکیں۔ «عيادة» سے ماخوز ہے۔ عیادت مریض کے حال احوال پوچھنے کے لئے جانے اور ملاقات کرنے کو کہتے ہیں

فوائد و مسائل:
➊ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت مسجد میں مریض کے قیام کے لئے خیمہ وغیرہ نصب کرنا جائز ہے۔
➋ مسجد میں سونا، بیمار یا زخمی کی تیمارداری کرنا اور اس کے علاج کا بندوبست کرنا بھی درست اور جائز ہے

۔ راوی حدیث:
حضرت سعد رضی اللہ عنہ، یہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں جو قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ کبار صحابہ میں سے ہیں، انہوں نے بیت عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں شرکت کی اور اسلام قبول کیا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے بن عبدالاشہل نے اسلام قبول کیا۔ اپنی قوم میں سردار اور شریف انسان تھے، قوم ان کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتی۔ ان کی رگ اکحل میں غزوہ خندق کے موقع پر ایک تیر لگا جس کی وجہ سے ذی تعدہ 5 ھ کو واقعہ بنی قریظہ کے بعد فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 202   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3101  
´بیمار کی کئی بار عیادت (بیمار پرسی) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب جنگ خندق کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ان کے بازو میں ایک شخص نے تیر مارا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3101]
فوائد ومسائل:

مریض کے احوال کو ملحوظ رکھتے ہوئے عیادت کے لئے بار بار آنا اسلامی اور اخلاق حسنہ کا حصہ ہے۔
نہ کہ کوئی معوب بات۔
بالخصوص مریض جب کوئی اہم آدمی ہو۔


ضرورت شرعی کے تحت مسجد (یا اس کے ساتھ ملحق حجروں) میں اقامت اختیارکرلینا یا کسی کو اقامت دینا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3101   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2813  
2813. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو آپ نے ہتھیار اتارے اور غسل فرمایا۔ اس وقت حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے جبکہ ان کا سر گردوغبار سے اٹا ہوا تھا، انھوں نے کہا: آپ نے ہتھیار اتاردیے ہیں؟لیکن اللہ کی قسم! میں نے تو ابھی تک نہیں اتارے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارا کہاں کا پروگرام ہے؟ انھوں نے کہا کہ اس طرف اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسی وقت ان کی طرف روانہ ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2813]
حدیث حاشیہ:
بنو قریظہ کے یہود نے جنگ خندق میں مسلمانوں سے معاہدہ کے خلاف مشرکین مکہ کا ساتھ دیا تھا اور یہ اندرونی سازشوں میں تیزی کے ساتھ مصروف رہے تھے‘ اس لئے ضروری ہوا کہ ان کی سازشوں سے بھی مدینہ کو پاک کیا جائے چنانچہ اللہ نے ایسا ہی کیا اور یہ سب مدینہ سے نکال دئیے گئے‘ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2813   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4117  
4117. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ غزوہ خندق سے واپس لوٹے اور پتھیار اتار کر غسل فرمایا تو آپ کے پاس حضرت جبریل ؑ حاضر ہوئے اور کہا: آپ نے تو ہتھیار اتار دیے ہیں۔ اللہ کی قسم! ہم نے انہیں نہیں اتار۔ اب آپ ان کی طرف کوچ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: کس طرف جانا ہے؟ حضرت جبریل ؑ نے کہا کہ اس طرف اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر نبی ﷺ نے ان کی طرف لشکر کشی کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4117]
حدیث حاشیہ:
جنگ خندق کے دنوں میں اس قبیلہ نے اندروں شہر بہت بد امنی پھیلائی تھی اور غداری کا ثبوت دیا تھا۔
اس لیے ان پر حملہ کرنا ضروری ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4117   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4122  
4122. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: غزوہ خندق کے موقع پر حضرت سعد ؓ زخمی ہو گئے تھے۔ قریش کے ایک حبان بن عرقہ نامی شخص۔۔ جس کا اصل نام حبان بن قیس تھا اور وہ بنو معیص بن عامر بن لؤی کے قبیلے سے تھا۔۔ نے انہیں تیر مارا جو ان کے بازو کی رگ میں لگا تھا۔ نبی ﷺ نے مسجد میں ان کا خیمہ نصب کرایا تھا تاکہ قریب سے ان کی بیمار پرسی کر لیا کریں۔ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ خندق سے واپس لوٹے، ہتھیار اتار دیے اور غسل فرما لیا تو حضرت جبریل ؑ حاضر ہوئے جبکہ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ نے تو ہتھیار اتار دیے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ابھی نہیں اتارے۔ آپ ان کی طرف چلیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: کدھر؟ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ پر چڑھائی کی تو انہوں نے آپ کا فیصلہ قبول کر لیا، لیکن آپ نے ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4122]
حدیث حاشیہ:
ہجرت کے بعد آنحضرت ﷺ نے یہودیوں کے مختلف قبائل اور آس پاس کے دوسرے مشرک عرب قبائل سے صلح کر لی تھی۔
لیکن یہودی برابر اسلام کے خلاف سازشوں میں لگے رہتے تھے۔
درپردہ تو ان کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی برابر ہی ہوتی رہتی تھی لیکن غزوئہ خندق کے موقع پر جو انتہائی فیصلہ کن غزوہ تھا اس میں خاص طور سے بنو قریظہ نے بہت کھل کر قریش کا ساتھ دیا اور معاہدہ کی خلافت ورزی کی تھی۔
اس لیے غزوئہ خندق کے فوراً بعد اللہ تعالی کا حکم ہوا کہ مدینہ کو ان سے پاک کرنا ہی ضروری ہے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
قرآن پاک کی سورۃ حشر اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی۔
ایک روایت میں ہے کہ سعد بن معاذ ؓ لیٹے ہوئے تھے۔
اتفاق سے ایک بکری آئی اور اس نے ان کے سینہ پر اپنا کھر رکھ دیا جس سے ان کا زخم پھر سے تازہ ہو گیا۔
جو ان کی وفات کا سبب ہوا۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4122   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2813  
2813. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو آپ نے ہتھیار اتارے اور غسل فرمایا۔ اس وقت حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے جبکہ ان کا سر گردوغبار سے اٹا ہوا تھا، انھوں نے کہا: آپ نے ہتھیار اتاردیے ہیں؟لیکن اللہ کی قسم! میں نے تو ابھی تک نہیں اتارے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارا کہاں کا پروگرام ہے؟ انھوں نے کہا کہ اس طرف اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسی وقت ان کی طرف روانہ ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2813]
حدیث حاشیہ:

بنو قریظہ،یہود مدینہ کا یک قبیلہ تھا جن سے مدینہ طیبہ پر کسی طرف سے حملہ ہونے کی صورت میں مشترکہ دفاع کرنے کا معاہدہ ہوا تھا لیکن انھوں نے غزوہ احزاب کے وقت عین موقع پر عہد شکنی کرنے دغا بازی کا ثبوت دیا۔
اس لیے اللہ کے حکم سے انھیں ان کے کیے کی سزا دی گئی۔

اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھر آتے ہی اپنے ہتھیار اتارے اور غسل فرمایا۔
اس سے امام بخاری ؒنے ثابت کیا ہے کہ جہاد سے فراغت کے بعد جسم پر پڑا ہواگرد و غبار باقی رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ صفائی کا تقاضا ہے کہ اسے غسل کے ذریعے سے دور کیا جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2813   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4122  
4122. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: غزوہ خندق کے موقع پر حضرت سعد ؓ زخمی ہو گئے تھے۔ قریش کے ایک حبان بن عرقہ نامی شخص۔۔ جس کا اصل نام حبان بن قیس تھا اور وہ بنو معیص بن عامر بن لؤی کے قبیلے سے تھا۔۔ نے انہیں تیر مارا جو ان کے بازو کی رگ میں لگا تھا۔ نبی ﷺ نے مسجد میں ان کا خیمہ نصب کرایا تھا تاکہ قریب سے ان کی بیمار پرسی کر لیا کریں۔ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ خندق سے واپس لوٹے، ہتھیار اتار دیے اور غسل فرما لیا تو حضرت جبریل ؑ حاضر ہوئے جبکہ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ نے تو ہتھیار اتار دیے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ابھی نہیں اتارے۔ آپ ان کی طرف چلیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: کدھر؟ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ پر چڑھائی کی تو انہوں نے آپ کا فیصلہ قبول کر لیا، لیکن آپ نے ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4122]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے بنوقریظہ کا محاصرہ کرنے سے پہلے حضرت علی ؓ اور حضرت زبیر بن عوام ؓ کو پیش قدمی کے طور پر روانہ فرمایا، پھر آپ نے خودان پر فوج کشی کی۔
پچیس دن کے محاصرے کے بعد انھوں نے خود کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیا کہ آپ جو مناسب خیال کریں، فیصلہ فرمائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے محمد بن مسیلمہ ؓ کی زیرنگرانی ان سب کے ہاتھ باندھ دیے، عورتوں اور بچوں کو مردوں سے الگ کردیا۔
پھرآپ ﷺ نے قبیلہ اوس کی درخواست پر ان کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کے حوالے کردیا۔
حضرت سعد ؓ کا فیصلہ انتہائی عدل وانصاف پرمبنی تھا، چنانچہ انھیں مدینہ لاکر بنو نجار کی ایک عورت کے گھر میں قید کردیا۔
پھر جب ان کے قتل کا وقت آپہنچا تو مدینہ طیبہ میں نالیاں کھودی گئیں جو ان کے خون سے بھر گئیں۔
اس طرح ان دغا بازوں کی گردنیں اُڑائی گئیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا۔
ان میں سے ریحانہ بنت عمرو کو آپ نے اپنے لیے منتخب فرمایا اور باقی قیدیوں کو نجد کے علاقے میں فروخت کرکےان کے عوض ہتھیار خرید لیے۔
اس کارروائی کے ذریعے سے غدر وخیانت کے ان سانپوں کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا جو مسلمانوں کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے تھے اور انھوں نے مسلمانوں کے کے خاتمے کے لیے اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کررکھی تھیں۔
بنوقریظہ کی اس تباہی کے ساتھ ہی بنونضیر کا ایک شیطان اور جنگ احزاب کا ایک بڑا مجرم حی بن اخطب بھی اپنے کیفرکردار کو پہنچ گیا۔
یہ شخص حضرت صفیہ ؓ کا باپ تھا۔

رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم تھا کہ جسے زیر ناف بال آچکے ہوں اسے قتل کردیا جائے۔
چونکہ حضرت عطیہ قرظی کو ابھی بال نہیں آئے تھے لہذا انھیں زندہ چھوڑدیا گیا، چنانچہ وہ مسلمان ہوکر شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔
اسی طرح حضرت رفاعہ کو بھی بنو نجار کی ایک خاتون سلمیٰ بنت قیس ؓ کی درخواست پر انھیں ہبہ کردیا گیا۔
وہ بھی شرف اسلام سے مشرف ہوئے۔
چند اور افراد نے بھی ہتھیار ڈالنے کی کارروائی سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا، لہذا ان کی جان اورمال، نیز ان کی اولاد بھی محفوظ رہی۔
بنوقریظہ کے اموال کو رسول اللہ ﷺ نے خمس نکال کر مجاہدین میں تقسیم کردیا۔
جس کے پاس گھوڑا تھا اسے تین حصے اور جو پیدل تھا اسے ایک حصہ دیا گیا۔

یہ غزوہ ذی القعدہ میں پیش آیا اور پچیس روز تک ان کا محاصرہ رہا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب میں اس کے متعلق آیات نازل فرمائیں اور اس کی اہم جزئیات کا ذکر کیا۔
دشمن کے مختلف گروہوں میں پھوٹ اور ان کی پست ہمتی پر تبصرہ فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4122