مسند عبدالله بن عمر
متفرق
حدیث نمبر:72
حدیث نمبر: 72
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا سَالِمُ بْنُ غِيَاثٍ، أَوْ أَبُو عَبَّادٍ شَكَّ عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثِيَابُ السَّفَرِ، فَقَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى رُكْبَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا الإِسْلامُ؟ قَالَ:" شَهَادَةُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُصَلِّي الْخَمْسَ، وَتَصُومُ شَهْرَ رَمَضَانَ، وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ"، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَنَا مُسْلِمٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَمَا الإِيمَانُ؟ قَالَ:" تُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَمَلائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَالْبَعْثِ، وَالْحِسَابِ، وَالْجَنَّةِ، وَالنَّارِ، وَالْقَدَرِ"، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَنَا مُؤْمِنٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: صَدَقْتَ، فَمَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ:" تَعْمَلُ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَنَا مُحْسِنٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ: فَمَا أَشْرَاطُهَا؟ قَالَ:" إِذَا تَطَاوَلَ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ"، قَالَ: الْعُرَيْبُ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَخَرَجَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيَّ الرَّجُلَ"، قَالَ: فَخَرَجْنَا فَلَمْ نَرَ أَحَدًا، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا جِبْرِيلُ، جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ أَمْرَ دِينِكُمْ، مَا جَاءَ فِي مثل صُورَتِهِ الْيَوْمَ قَطُّ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک مسافر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا پھر اس نے پوچھا: اسلام کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور تو پانچ نمازیں پڑھے اور تو رمضان کے مہینے کے روزے رکھے اور تو زکاۃ ادا کرے اور تو بیت اللہ کا حج کرے۔“ا س نے پوچھا: جب میں یہ سب کروں تومیں مسلمان ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر پوچھا: ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اوراس کے رسولوں پر ایمان لائے اور تو یوم آخرت،دوبارہ اٹھائے جانے،حساب،جنت،جہنم اور تقدیر پر ایمان لائے۔“ اس نے دریافت کیا جب میں یہ کروں تو میں مومن ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر پوچھا: احسان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: تو اللہ (کی رضا) کے لیے عمل کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے (ضرور) دیکھ رہا ہے۔“ اس نے پوچھا: جب میں اس طرح کروں تو میں محسن (نیکوکار) ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس نے پھر دریافت کیا۔ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔“ اس نے دریافت کیا، اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”جب ننگے پاؤں،ننگے بدن والے ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں۔“ اس نے پوچھا، بے گھر لوگ؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں۔ پھر وہ مسافر چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس آدمی کو واپس بلاؤ۔“ ہم نے باہر نکل کر دیکھا تو ہمیں کوئی شخص بھی نظر نہ آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جبریل تھا جو تمہیں امور دین سکھانے آیا تھا۔ اس شکل و صورت میں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔“
تخریج الحدیث: مسند البزار: 12/244، رقم الحديث: 5990»
حكم: إسناده صحيح