صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
6. بَابُ: {يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اس دن کو یاد کرو جب کہ ہم بڑی سخت پکڑ پکڑ یں گے، ہم بلا شک اس دن پورا پورا بدلہ لیں گے“۔
حدیث نمبر: 4825
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" خَمْسٌ قَدْ مَضَيْنَ اللِّزَامُ، وَالرُّومُ، وَالْبَطْشَةُ، وَالْقَمَرُ، وَالدُّخَانُ".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پانچ (قرآن مجید کی پیشیں گوئیاں) گزر چکی ہیں۔ «اللزام» (بدر کی لڑائی کی ہلاکت)، «الروم» (غلبہ روم) «البطشة» (سخت پکڑ)، «القمر» (چاند کے ٹکڑے ہونا) اور «والدخان» دھواں، شدت فاقہ کی وجہ سے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4825 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4825
حدیث حاشیہ:
لزام سے مراد غزوہ بدر میں کفار قریش کی ہلاکت ہے الروم سے مراد فارس پر اہل روم کا غلبہ اور الدخان سے مراد شدت فاقہ کی وجہ سے فضا میں نظر آنے والا دھواں۔
اگرچہ دھویں کا واقعہ گزر چکا ہے تاہم قرب قیامت کے وقت بھی دھواں نمودار ہوگا۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”چھ چیزوں کے واقع ہونے سے پہلے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کر لو۔
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا دھویں کا ظاہر ہونا یا دجال کا خروج کرنا یا دابة الأرض کا نکلنا یا تم میں کسی کا خاص وقت (مدت)
آجانا یا سب کے لیے واقع ہونے والا معاملہ قیامت کا)
قائم ہو جانا۔
“ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 3797(2947)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4825