مسند عبدالله بن عمر
متفرق
حدیث نمبر:1
حدیث نمبر: 1
حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ زَيْدٍ الْجَمَّالُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَكَانَ فِي الْحَضَرِ: إِذَا صَلَّى الظُّهْرَ صَلَّى أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ، وَإِذَا صَلَّى الْعَصْرَ صَلَّى أَرْبَعًا، وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا، وَإِذَا صَلَّى الْمَغْرِبَ صَلَّى ثَلاثًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا صَلَّى الْعِشَاءَ الآخِرَةَ صَلَّى أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ، وَصَحِبْتُهُ فِي السَّفَرِ: فَإِذَا صَلَّى الظُّهْرَ صَلَّى ثِنْتَيْنِ، وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ، وَإِذَا صَلَّى الْعَصْرَ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا، وَإِذَا صَلَّى الْمَغْرِبَ صَلَّى ثَلاثًا، وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ، وَقَالَ: هَذَا وِتْرُ النَّهَارِ، يَخْتِمُ بِهِ النَّهَارَ، وَيَفْتَتِحُ اللَّيْلَ بِوِتْرٍ، وَإِذَا صَلَّى الْعِشَاءَ الآخِرَةَ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں حضر اور سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ حضر میں جب ظہر کی نماز پڑھتے تو چار رکعات (فرض) اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے اور جب عصر کی نماز پڑھتے تو (صرف) چار رکعات (فرض ہی) پڑھتے اور ان کے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے اور جب مغرب کی نماز پڑھتے تو تین رکعات (فرض) پڑھتے اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے اور جب عشاء کی نماز ادا کرتے تو چار رکعات فرض ادا کرتے اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے۔ اور میں سفر میں آپ کے ساتھ رہا تو آپ جب ظہر کی نماز پڑھتے تو دو رکعات (فرض) پڑھتے اور ان کے بعد (بھی) دو رکعات پڑھتے تھے اور جب عصر کی نماز پڑھتے تو (صرف) دو رکعات پڑھتے، ان کے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے اور جب مغرب کی نماز پڑھتے تو تین رکعات (فرض) پڑھتے اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے اورکہا: یہ (نماز مغرب)دن کے وتر ہیں جن کے ساتھ دن ختم ہو جاتا ہے اور رات کا آغاز ہوتا ہے اور جب عشاء کی نما زپڑھتے تو دو رکعات پڑھتے اور ان کے بعد (بھی) دو رکعات پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 9/452: رقم الحديث: 5634، ابن خزيمة: 2/244: رقم الحديث: 1254»
اس کی سند ضعیف ہے، اس میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہے، اسے امام احمد، مسلم، ابوحاتم اور نسائی نے ضعیف کہا ہے۔
حكم: ضعیف