معجم صغير للطبراني
كِتَابُ الْبِرِّ وَ الصِّلَةِ
نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
بیٹے پر باپ کے حقوق کا بیان
حدیث نمبر: 1171
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ الْبَرْذَعِيُّ ، بِمِصْرَ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ عُبَيْدُ بْنُ خَلَصَةَ بِمَعْرَةِ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الْمَدَنِيُّ ، عَنِ الْمُنْكَدِرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" إِنَّ أَبِي أَخَذَ مَالِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لِلرَّجُلِ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِأَبِيكَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يُقْرِئُكَ السَّلامَ، وَيَقُولُ: إِذَا جَاءَكَ الشَّيْخُ، فَسَلْهُ عَنْ شَيْءٍ قَالَهُ فِي نَفْسِهِ مَا سَمِعَتْهُ أُذُنَاهُ، فَلَمَّا جَاءَ الشَّيْخُ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: مَا بَالُ ابْنِكَ يَشْكُوكَ، أَتُرِيدُ أَنْ تَأْخُذَ مَالَهُ؟، فَقَالَ: سَلْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ أَنْفَقْتُهُ إِلا عَلَى عَمَّاتِهِ أَوْ خَالاتِهِ أَوْ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: إِيهِ، دَعْنَا مِنْ هَذَا أَخْبِرْنَا عَنْ شَيْءٍ قُلْتَهُ فِي نَفْسِكَ مَا سَمِعَتْهُ أُذُنَاكَ، فَقَالَ الشَّيْخُ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يَزَالُ اللَّهُ يَزِيدُنَا بِكَ يَقِينًا، لَقَدْ قُلْتُ فِي نَفْسِي شَيْئًا مَا سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، فَقَالَ: قُلْ: وَأَنَا أَسْمَعُ، قَالَ: قُلْتُ: غَذَوْتُكَ مَوْلُودًا وَمُنْتُكَ يَافِعًا تُعَلُّ بِمَا أَجْنِي عَلَيْكَ وَتَنْهَلُ إِذَا لَيْلَةٌ ضَافَتْكَ بِالسُّقْمِ لَمْ أَبِتْ لِسُّقْمِكَ إِلا سَاهِرًا أَتَمَلْمَلُ كَأَنِّي أَنَا الْمْطَرُوقُ دُونَكَ بِالَّذِي طُرِقْتَ بِهِ دُونِي فَعَيْنَايَ تَهْمُلُ تَخَافُ الرَّدَى نَفْسِي عَلَيْكَ وَإِنَّهَا لَتَعْلَمُ أَنَّ الْمَوْتَ وَقْتٌ مُؤَجَّلُ فَلَمَّا بَلَغْتَ السِّنَّ وَالْغَايَةَ الَّتِي إِلَيْهَا مَدَى مَا فِيكَ كُنْتُ أُؤَمِّلُ جَعَلْتَ جَزَائِي غِلْظَةً وَفَظَاظَةً كَأَنَّكَ أَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلُ فَلَيْتَكَ إِذْ لَمْ تَرْعَ حَقَّ أُبُوَّتِي فَعَلْتَ كَمَا الْجَارُ الْمُجَاوِرُ يَفْعَلُ تَرَاهُ مُعَدًّا لِلْخِلافِ كَأَنَّهُ بِرَدٍّ عَلَى أَهْلِ الصَّوَابِ مُوَكَّلُ قَالَ: فَحِينَئِذٍ أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِتَلابِيبِ ابْنِهِ، وَقَالَ: أَنْتَ وَمَالُكُ لأَبِيكَ"، لا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، إِلا بِهَذَا التَّمَامِ وَالشِّعْرِ، إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ عُبَيْدُ بْنُ خَلَصَةَ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے باپ نے میرا سارا مال لے لیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور اپنے باپ کو میرے پاس لے آؤ۔“ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہنے لگے کہ: اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام کیا ہے اور فرمایا کہ جب آپ کے پاس وہ بوڑھا آئے تو اس سے ایک ایسی بات پوچھیے جو اس نے اپنے دل میں کہی ہے، جس کو اس کے کانوں نے نہیں سنا۔ جب بوڑھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا بیٹا تیری شکایت کرتا ہے، کیا تو اس سے اس کا مال لینا چاہتا ہے؟“ وہ کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اس سے پوچھیے کہ کیا میں نے اس کا مال اس کی پھوپھیوں اور خالاؤں پر خرچ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بات چھوڑو، مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے اپنے دل میں کیا بات کی ہے جس کو تمہارے کانوں نے نہیں سنا۔“ وہ کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ آپ کی وجہ سے ہمیں یقین میں بڑھاتا رہا، اور میں نے اپنے دل میں یہ شعر کہے ہیں جن کو میرے کانوں نے نہیں سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہو میں سنتا ہوں۔“
(اشعار کا ترجمہ): (1) میں تجھے بچپن میں غذا دیتا رہا اور جوانی میں بھی تیرا نفقہ وغیرہ برداشت کرتا رہا جو میں تجھے چن چن کر دیتا رہا، تو ان سے پہلے بھی پھر دوبارہ بھی لیتا رہا۔ (2) اگر کسی رات تجھ پر بیماری آگئی تو میں رات سوتا نہ تھا کیونکہ تو بیمار تھا، بلکہ میں بیدار اور بے قرار ہوتا رہا۔ (3) گویا کہ یہ رات کا مہمان جو تیرے پاس آیا یہ تیرے پاس نہیں بلکہ میرے پاس آیا ہے، اس لیے میری آنکھیں برس رہی ہیں۔ (4) میرا نفس تجھ پر ہلاکت سے خوف زدہ ہوتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ (5) اور جب تو اس عمر کو پہنچا اور مسافت کی اس انتہا کو پہنچا جس کی میں تجھ پر امید رکھتا تھا۔ (6) تو نے مجھے اس کے بدلے میں سخت دلی اور ترش روئی سے ہم کنار کر دیا، گویا کہ تو ہی انعام کرنے والا اور مجھ پر مہربانی کرنے والا ہے۔ (7) کاش کہ تو اگر میرے باپ ہونے کا حق سمجھتا تو پڑوس میں رہنے والے ہمسائے کی طرح ہی میرے ساتھ سلوک کیا ہوتا۔ (8) تم اس کو ہر لغت پر تیار پاؤگے، گویا کہ وہ اہلِ حق کے خلاف جواب دینے پر مقرر کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے گریبان کو پکڑ کر فرمایا: ”تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 2291، قال الشيخ الألباني: صحيح، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2290، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15852، 15853، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16628، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 23142، 37368، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 6150، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 1598، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3534، 6570، 6728، والطبراني فى «الصغير» برقم: 947
قال الهيثمي: وفيه من لم أعرفه والمنكدر بن محمد ضعيف، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (4 / 155)»
حكم: إسناده ضعيف