صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
43. سورة حم الزُّخْرُفِ:
باب: سورۃ حم زخرف کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: عَلَى أُمَّةٍ: عَلَى إِمَامٍ، وَقِيلَهُ يَا رَبِّ: تَفْسِيرُهُ أَيَحْسِبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَلَا نَسْمَعُ قِيلَهُمْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً: لَوْلَا أَنْ جَعَلَ النَّاسَ كُلَّهُمْ كُفَّارًا لَجَعَلْتُ لِبُيُوتِ الْكُفَّارِ سَقْفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ مِنْ فِضَّةٍ وَهِيَ دَرَجٌ وَسُرُرَ فِضَّةٍ، مُقْرِنِينَ: مُطِيقِينَ، آسَفُونَا: أَسْخَطُونَا، يَعْشُ: يَعْمَى، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ: أَيْ تُكَذِّبُونَ بِالْقُرْآنِ، ثُمَّ لَا تُعَاقَبُونَ عَلَيْهِ، وَمَضَى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ: سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ وَمَا كُنَّا لَهُ، مُقْرِنِينَ: يَعْنِي الْإِبِلَ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ، يَنْشَأُ فِي الْحِلْيَةِ: الْجَوَارِي جَعَلْتُمُوهُنَّ لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا فَكَيْفَ تَحْكُمُونَ، لَوْ شَاءَ الرَّحْمَنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ: يَعْنُونَ الْأَوْثَانَ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: مَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ: أَيِ الْأَوْثَانُ إِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ، فِي عَقِبِهِ: وَلَدِهِ، مُقْتَرِنِينَ: يَمْشُونَ مَعًا، سَلَفًا: قَوْمُ فِرْعَوْنَ، سَلَفًا: لِكُفَّارِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَثَلًا: عِبْرَةً، يَصِدُّونَ: يَضِجُّونَ، مُبْرِمُونَ: مُجْمِعُونَ أَوَّلُ الْعَابِدِينَ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ: الْعَرَبُ تَقُولُ نَحْنُ مِنْكَ الْبَرَاءُ وَالْخَلَاءُ وَالْوَاحِدُ وَالِاثْنَانِ وَالْجَمِيعُ مِنَ الْمُذَكَّرِ وَالْمُؤَنَّثِ يُقَالُ فِيهِ بَرَاءٌ لِأَنَّهُ مَصْدَرٌ، وَلَوْ قَالَ بَرِيءٌ لَقِيلَ: فِي الِاثْنَيْنِ بَرِيئَانِ وَفِي الْجَمِيعِ بَرِيئُونَ، وَقَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّنِي بَرِيءٌ بِالْيَاءِ وَالزُّخْرُفُ الذَّهَبُ مَلَائِكَةً يَخْلُفُونَ يَخْلُفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا.
مجاہد نے کہا کہ «على أمة» کے معنی ایک امام پر یا ایک ملت پر یا ایک دین پر۔ «وقيله يا رب» کا معنی ہے کیا کافر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی آہستہ باتیں اور ان کی کانا پھوسی اور ان کی گفتگو نہیں سنتے (یہ تفسیر اس قرآت پر ہے جب «وقیله» بہ نصب لام پڑھا جائے۔ اس حالت میں «وسرهم ونجواهم» پر عطف ہو گا اور مشہور قرآت «وقیله» بہ کسر لام ہے۔ اس صورت میں یہ «الساعة» پر عطف ہو گا یعنی اللہ تعالیٰ ان کی گفتگو بھی جانتا ہے اور سنتا ہے)۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ولولا أن يكون الناس أمة واحدة» کا مطلب یہ ہے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگوں کو کافر ہی بنا ڈالتا تو میں کافروں کے گھروں میں چاندی کی چھتیں اور چاندی کی سیڑھیاں کر دیتا۔ «معارج» کے معنی سیڑھیاں، تخت وغیرہ۔ «مقرنين» زور والے۔ «آسفونا» ہم کو غصہ دلایا۔ «يعش» اندھا بن جائے۔ مجاہد نے کہا «أفنضرب عنكم الذكر» کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم قرآن کو جھٹلاتے رہو گے اور ہم تم پر عذاب نہیں اتاریں گے (تم کو ضرور عذاب ہو گا)۔ «ومضى مثل الأولين» اگلوں کے قصے کہانیاں چل پڑیں۔ «وما کنا له مقرنين» یعنی اونٹ گھوڑے، خچر اور گدھوں پر ہمارا زور اور قابو نہ چل سکتا تھا۔ «ينشأ في الحلية» سے بیٹیاں مراد ہیں، یعنی تم نے بیٹی ذات کو اللہ کی اولاد ٹھہرایا، واہ واہ کیا اچھا حکم لگاتے ہو۔ «لو شاء الرحمن ما عبدناهم» میں «هم» کی ضمیر بتوں کی طرف پھرتی ہے کیونکہ آگے فرمایا «ما لهم بذلك من علم» یعنی بتوں کو جن کو یہ پوجتے ہیں کچھ بھی علم نہیں ہے وہ تو بالکل بے جان ہیں «في عقبه» اس کی اولاد میں۔ «مقترنين» ساتھ ساتھ چلتے ہوئے۔ «سلفا» سے مراد فرعون کی قوم ہے۔ وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کافر ہیں ان کے پیشوا یعنی اگلے لوگ تھے۔ «ومثلا للاخرین» یعنی پچھلوں کی عبرت اور مثال۔ «يصدون» چلانے لگے، شور و غل کرنے لگے۔ «مبرمون» ٹھاننے والے، قرار دینے والے۔ «أول العابدين» سب سے پہلے ایمان لانے والا۔ «إنني براء مما تعبدون» عرب لوگ کہتے ہیں ہم تم سے «براء» ہیں ہم تم سے «خلاء» ہیں یعنی بیزار ہیں، الگ ہیں، کچھ غرض واسطہ تم سے نہیں رکھتے۔ واحد، تثنیہ، جمع، مذکر و مؤنث سب میں «براء» کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ «براء» مصدر ہے۔ اور اگر «بريء» پڑھا جائے جیسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرآت ہے تب تو تثنیہ میں «بريئان» اور جمع میں «بريئون» کہنا چاہئے۔ «الزخرف» کے معنی سونا۔ «ملائكة يخلفون» یعنی فرشتے جو ایک کے پیچھے ایک آتے رہتے ہیں۔