Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ} :
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دو کہ اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہ بخش دے گا، بیشک وہ بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے“۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ: يُجَرُّ عَلَى وَجْهِهِ فِي النَّارِ، وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا: يَوْمَ الْقِيَامَةِ غَيْرَ، ذِي عِوَجٍ: لَبْسٍ، وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ: مَثَلٌ لِآلِهَتِهِمُ الْبَاطِلِ وَالْإِلَهِ الْحَقِّ، وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ: بِالْأَوْثَانِ خَوَّلْنَا أَعْطَيْنَا، وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ: الْقُرْآنُ، وَصَدَّقَ بِهِ: الْمُؤْمِنُ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ: هَذَا الَّذِي أَعْطَيْتَنِي عَمِلْتُ بِمَا فِيهِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مُتَشَاكِسُونَ: الرَّجُلُ الشَّكِسُ الْعَسِرُ لَا يَرْضَى بِالْإِنْصَافِ وَرَجُلًا سِلْمًا، وَيُقَالُ: سَالِمًا صَالِحًا، اشْمَأَزَّتْ: نَفَرَتْ، بِمَفَازَتِهِمْ: مِنَ الْفَوْزِ، حَافِّينَ: أَطَافُوا بِهِ مُطِيفِينَ بِحِفَافَيْهِ بِجَوَانِبِهِ، مُتَشَابِهًا: لَيْسَ مِنَ الْاشْتِبَاهِ وَلَكِنْ يُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا فِي التَّصْدِيقِ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «يتقي بوجهه‏» سے یہ مراد ہے کہ منہ کے بل دوزخ میں گھسیٹا جائے گا جیسے اس آیت میں فرمایا «أفمن يلقى في النار خير أم من يأتي آمنا‏» الایۃ۔ «ذي عوج‏» کے معنی شبہ والا۔ «ورجلا سلما لرجل‏» یہ ایک مثال ہے مشرکین کے معبودان باطلہ کی اور معبود برحق کی۔ «ويخوفونك بالذين من دونه‏» میں «من دونه‏» سے مراد بت ہیں (یعنی مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں سے تجھ کو ڈراتے ہیں)۔ «خولنا» کے معنی ہم نے دیا۔ «والذي جاء بالصدق‏» سے قرآن مراد ہے اور «صدق‏» سے مسلمان مراد ہے جو قیامت کے دن پروردگار کے سامنے آ کر عرض کرے گا یہی قرآن ہے جو تو نے دنیا میں مجھ کو عنایت فرمایا تھا، میں نے اس پر عمل کیا۔ «متشاكسون‏»، «شكس» سے نکلا ہے «شكس» بدمزاج تکراری آدمی کو کہتے ہیں جو انصاف کی بات پسند نہ کرے۔ «سلما» اور «سالما» اچھے پورے آدمی کو کہتے ہیں۔ «اشمأزت‏» کے معنی نفرت کرتے ہیں، چڑتے ہیں۔ «بمفازتهم‏»، «فوز‏.‏‏» سے نکلا ہے مراد کامیابی ہے۔ «حافين‏» کے معنی گردا گرد اس کے چاروں طرف۔ «متشابها‏»، «اشتباه» سے نہیں بلکہ «تشابه» سے نکلا ہے یعنی اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔
حدیث نمبر: 4810
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ، قَالَ يَعْلَى: إِنَّ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ كَانُوا قَدْ قَتَلُوا، وَأَكْثَرُوا، وَزَنَوْا، وَأَكْثَرُوا، فَأَتَوْا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: إِنَّ الَّذِي تَقُولُ وَتَدْعُو إِلَيْهِ لَحَسَنٌ لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا كَفَّارَةً، فَنَزَلَ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ سورة الفرقان آية 68، وَنَزَلَ: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ سورة الزمر آية 53".
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا، انہیں سعید بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ مشرکین میں بعض نے قتل کا گناہ کیا تھا اور کثرت سے کیا تھا۔ اسی طرح زناکاری بھی کثرت سے کرتے رہے تھے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی طرف دعوت دیتے ہیں (یعنی اسلام) یقیناً اچھی چیز ہے، لیکن ہمیں یہ بتائیے کہ اب تک ہم نے جو گناہ کئے ہیں وہ اسلام لانے سے معاف ہوں گے یا نہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون‏» اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اور کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی بھی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، ہاں مگر حق کے ساتھ اور یہ آیت نازل ہوئی «قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله‏» آپ کہہ دیں کہ اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ بیشک اللہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4810 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4810  
حدیث حاشیہ:

اس آیت کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ، اس کے احکام و فرائض کی مطلق کوئی پرواہ نہ کرو اور اس کی حدود کو بے دردی سے پامال کرو۔
اس طرح اس کےغضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھنا نہایت بے وقوفی اور خام خیالی ہے۔
ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنےبندوں کے لیے غفور و رحیم ہے وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عزیز ذوانتقام بھی ہے۔

بہرحال اللہ تعالیٰ کی معافی کے لیے دوشرطیں ہیں:
ایک تو اس کی طرف رجوع کیا جائے اور دوسری اس کے احکام کی بجا آوری ہو، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا اعلان عام ہے، لہذا جلد از جلد اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے فائدہ اٹھانا چاہیے، نیز یہ خطاب صرف مشرکین مکہ ہی کے لیے نہیں بلکہ اس کا حکم عام ہرغیر مسلم اور گناہ گار کے لیے ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4810   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 322  
حضرت ابنِ عبّاس ؓ سے روایت ہے کہ کچھ مشرک لوگوں نے (جاہلیت کے دورمیں) بہت قتل کیے، بہت زنا کیے، پھر محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے آپؐ جو کچھ فرماتےہیں، اور جس راہ کی دعوت دیتے ہیں، بہت اچھا ہے اگر آپ ہمیں یہ بتا دیں کہ جو عمل ہم کر چکے ہیں ان کا کفارہ ہے (تو ہم ایمان لے آئیں) تو یہ آیت نازل ہوئی: جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ نے محفوظ قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:322]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حدیث کا مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں آیتوں کے بعد والی آیات کو پڑھا جائے،
تاکہ یہ بات واضح ہو سکے کہ توبہ سے (اسلام لانا بھی کفر وشرک سے توبہ ہے)
تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 322