Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
38. سورة {ص} :
باب: سورۃ ص کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4807
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، عَنْ الْعَوَّامِ، قَالَ:" سَأَلْتُ مُجَاهِدًا عَنْ سَجْدَةٍ فِي ص؟ فَقَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ أَيْنَ سَجَدْتَ؟ فَقَالَ: أَوَ مَا تَقْرَأُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ سورة الأنعام آية 90، فَكَانَ دَاوُدُ مِمَّنْ أُمِرَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْتَدِيَ بِهِ، فَسَجَدَهَا دَاوُدُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَسَجَدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے محمد بن عبداللہ ذہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبید طنافسی نے، ان سے عوام بن حوشب نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سورۃ ص میں سجدہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کہ اس سورت میں آیت سجدہ کے لیے دلیل کیا ہے؟ انہوں نے کہا کیا تم (سورت انعام) میں یہ نہیں پڑھتے «ومن ذريته داود وسليمان‏» کہ اور ان کی نسل سے داؤد اور سلیمان ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے یہ ہدایت دی تھی، سو آپ بھی ان کی ہدایت کی اتباع کریں۔ داؤد علیہ السلام بھی ان میں سے تھے جن کی اتباع کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تھا (چونکہ داؤد علیہ السلام کے سجدہ کا اس میں ذکر ہے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر سجدہ کیا)۔ «عجاب‏» کا معنی عجیب۔ «القط» کہتے ہیں کاغذ کے ٹکڑے (پرچے) کو یہاں نیکیوں کا پرچہ مراد ہے (یا حساب کا پرچہ)۔ اور مجاہد رحمہ اللہ نے کہا «في عزة‏» کا معنی یہ ہے کہ وہ شرارت و سرکشی کرنے والے ہیں۔ «الملة الآخرة‏» سے مراد قریش کا دین ہے۔ «اختلاق» سے مراد جھوٹ۔ «الأسباب» آسمان کے راستے، دروازے مراد ہیں۔ «جند ما هنالك مهزوم‏» الایۃ سے قریش کے لوگ مراد ہیں۔ «أولئك الأحزاب‏» سے اگلی امتیں مراد ہیں۔ جن پر اللہ کا عذاب اترا۔ «فواق‏» کا معنی پھرنا، لوٹنا۔ «عجل لنا قطنا‏» میں «قط» سے عذاب مراد ہے۔ «اتخذناهم سخريا‏» ہم نے ان کو ٹھٹھے میں گھیر لیا تھا۔ «أتراب» جوڑ والے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أيد» کا معنی عبادت کی قوت۔ «الأبصار» اللہ کے کاموں کو غور سے دیکھنے والے۔ «حب الخير عن ذكر ربي‏» میں «عن من» کے معنی میں ہے۔ «طفق مسحا‏» گھوڑوں کے پاؤں اور ایال پر محبت سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ یا بقول بعض تلوار سے ان کو کاٹنے لگے۔ «الأصفاد‏» کے معنی زنجیریں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4807 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4807  
حدیث حاشیہ:

اس سورت میں حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور وہ سمجھ گئے کہ ہم نے انھیں آزمایا ہے، پھر تو وہ اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گرپڑے اوررجوع کیا۔
(ص: 24)
عاجزی کرتے ہوئے گر پڑنے سے مراد ان کا سجدہ کرنا ہے۔
جب انھوں نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی اتباع میں سجدہ کیا، لہذا ہمیں بھی سجدہ کرنا چاہیے۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
سورہ ص کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں، البتہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سجدہ کرتے دیکھا ہے۔
(صحیح البخاري، سجود القرآن، حدیث: 1069)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4807   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 958  
´سورۃ «‏‏‏‏ص» ‏‏‏‏ میں سجدوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ «ص» میں سجدہ کیا، اور فرمایا: داود علیہ السلام نے یہ سجدہ توبہ کے لیے کیا تھا، اور ہم یہ سجدہ (توبہ کی قبولیت پر) شکر ادا کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 958]
958 ۔ اردو حاشیہ:
➊ قرآن مجید میں بعض آیات ایسی آتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی فرمانبرداری اور ان کے سجدہ کرنے کا ذکر ہے یا ان میں تکبر کی مذمت کی گئی ہے یا اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، بندگی اور سجدے کی تعریف کی گئی ہے یا ان میں سجدے کا حکم ہے۔ ان آیات کو پڑھتے وقت ایک مومن شخص بے ساختہ سجدے میں گر پڑتا ہے۔ انہیں سجدے کی آیات کہا جاتا ہے اور اس سجدے کو سجدۂ تلاوت کہتے ہیں۔ اگر قاری سجدے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے سجدہ کرنا چاہیے، ویسے نہ گزر جائے۔ اگر سجدہ کرنے کی حالت میں نہیں تو سر جھکا لے اور اشارے سے سجدہ کرے، مثلاً: سائیکل یا گاڑی چلانے والا۔ نیچے اتر کر سجدہ کرنا ممکن ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اگر کوئی شخص قرأت کر رہا ہو اور اس کے لیے سجدے کی استطاعت ہو، تو وہ بھی سجدہ کرے۔ سجدۂ تلاوت مستحب ہے۔ اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے۔ سجدۂ تلاوت کے تفصیلی احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: [سنن ابوداود اردو سجود القرآن، كا ابتدائيه، طبع دارالسلام، و ذخيرة العقبي شرح سنن النسائي: 196-190/12]
➋ سورۂ صٓ کا سجدہ امام شافعی رحمہ اللہ تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہاں آیت میں سجدے کا لفظ ہی نہیں، بس یہ الفاظ ہیں: « ﴿خَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ﴾ » [ص: 24: 38]
جبکہ دیگر اہل علم اس سجدے کے قائل ہیں کیونکہ یہاں معنی تو سجدے ہی کا ہے اگرچہ لفظ «‏‏‏‏رَاكِعًا» ‏‏‏‏ کے ہیں۔ امام مالک بھی امام شافعی کے ہم نوا ہیں۔
➌ حضرت داود علیہ السلام سے کوئی (اجتہادی) غلطی ہو گئی تھی جس کی تفصیل قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں نہیں ہے، لہٰذا ہمیں بھی اس کی کرید نہیں کرنی چاہیے۔ جب انہیں غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے بطور توبہ سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو اس کے شکرانے کے طور پر ہم سجدہ کرتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 958   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 271  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سورۃ «ص» کا سجدہ ان میں سے نہیں ہے جن کا ذکر ضروری ہے، البتہ میں نے یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 271»
تخریج:
«أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب سجدة ص، حديث:1069.»
تشریح:
1. اس سے معلوم ہوا کہ سورۂ صٓ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا ہے‘ البتہ آپ نے اس کا حکم نہیں فرمایا اور اس کی تاکید نہیں کی۔
2. اس سے معلوم ہوا کہ بعض اعمال اگرچہ مسنون ہیں مگر ان کے بارے میں تاکید نہیں۔
وہ بھی سنت خیرالانام کے زمرے میں آتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 271   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 577  
´سورۃ ص کے سجدے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ ص میں سجدہ کرتے دیکھا۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: یہ واجب سجدوں میں سے نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 577]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یہ نبی داؤد علیہ السلام تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 577   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:483  
483- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۂ ص میں سجدۂ تلاوت کرتے ہوئے دیکھا ہے، تاہم یہ لازمی سجدہ نہیں ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:483]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورۃ ص میں سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے، اگر کوئی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اگر کوئی سجدہ نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ عزائم سجود سے مراد وہ جود تلاوت میں جنھیں بجالانے کی تاکید کی گئی ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 483   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1069  
1069. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ ضروری نہیں، البتہ میں نے نبی ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1069]
حدیث حاشیہ:
نسائی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سورۃ ص میں سجدہ کیا اور فرمایا کہ یہ سجدہ داؤد ؑ نے توبہ کے لیے کیا تھا ہم شکر کے طور پر یہ سجدہ کرتے ہیں اس حدیث میں ''لیس من عزائم السجود'' کا بھی یہی مطلب ہے کہ سجدہ تو داؤد ؑ کا تھا اور انہیں کی سنت پر ہم بھی شکر کے لیے یہ سجدہ کر تے ہیں۔
اللہ تعالی نے حضرت داؤد ؑ کی توبہ قبول کر لی تھی۔
والمراد بالعزائم ما وردت العزیمة علی فعله کصیغة الأمر الخ۔
(فتح الباري)
یعنی عزائم سے مراد وہ جن کے لیے صیغہ امر کے ساتھ تاکید وارد ہوئی ہو۔
سورۃ ص کا سجدہ ایسا نہیں ہے، ہاں بطور شکر سنت ضرور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1069   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3422  
3422. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ عزائم (ضروری) سجود میں سے نہیں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس میں سجدہ کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3422]
حدیث حاشیہ:
گوحدیث اس باب سےتعلق نہیں رکھتی مگر سورۂ ص میں حضرت داؤد کا بیا ن ہے اور اس میں سجدہ بھی حضرت داؤد کی توبہ قبول ہونے کےشکریہ میں ہے، اس مناسبت سے اس کوبیان کردیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3422   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1069  
1069. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ ضروری نہیں، البتہ میں نے نبی ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1069]
حدیث حاشیہ:
عزائم سجود سے مراد وہ سجودِ تلاوت ہیں جنہیں بجا لانے کی تاکید کی گئی ہے۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حم سجدہ، النجم، اقراء، الم تنزیل کے سجود عزائم سے ہیں۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 315/2، و المصنف لابن أبي شیبة: 378/1، رقم: 4349)
سورۂ ص کے سجدے کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ سجدہ عزائم سجود میں سے نہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جن انبیاء کی پیروی کرنے کا حکم ہے ان میں حضرت داود ؑ ہیں، چونکہ انہوں نے سجدہ کیا تھا، اس لیے سورۂ ص میں سجدہ کرنا چاہیے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3421)
سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدۂ ص کے متعلق فرمایا:
حضرت داود ؑ کا یہ سجدہ بطور توبہ تھا اور ہم ان کی پیروی میں بطور شکر سجدہ کرتے ہیں۔
'' (سنن النسائي، الافتتاح، حدیث: 958)
ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورۂ ص کو منبر پر تلاوت فرمایا، جب مقام سجدہ پر پہنچے تو نیچے اتر کر سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ ادا کیا، پھر کسی اور دن اسے تلاوت فرمایا، لوگ حسب سابق سجدے کے لیے تیار ہوئے تو آپ نے فرمایا:
یہ سجدہ تو ایک نبی کی توبہ کی بنا پر تھا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ تم سجدے کے لیے تیار ہو چکے ہو۔
اس لیے آپ منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا۔
(سنن أبي داود، سجودالقرآن، حدیث: 1410)
لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ ادا کیا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سجدہ تو ہے لیکن اس کے متعلق تاکید نہیں ہے۔
(فتح الباري: 714/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1069   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3422  
3422. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ عزائم (ضروری) سجود میں سے نہیں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس میں سجدہ کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3422]
حدیث حاشیہ:

چونکہ سورہ ص میں حضرت داؤد ؑ اور ان کا سجدہ کرنے کا بیان ہے، اس مناسبت سے اس حدیث کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔

عزائم سجود کا مطلب یہ ہے کہ مؤکدات سجود سے نہیں، یعنی سورہ ص کا سجدہ ضروری نہیں بلکہ سجدہ شکر ہے۔
حضرت ابوسعیدخدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر سورہ ص تلاوت فرمائی، جب مقام سجدہ پر پہنچے تو اترے اور سجدہ کیا، پھر کسی اور دن اسے تلاوت فرمایا تو جب آیت سجدہ پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لیے تیار ہوئے، آپ نے فرمایا:
یہ تو ایک نبی کی توبہ کے نتیجے میں تھا لیکن میں نے تمھیں دیکھاہے کہ تم سجدے کے لیے تیار ہو، آپ اترے اور سجدہ کیا۔
(سنن أبي داود، السجود، حدیث: 1410)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ ص کا سجدہ مؤکدات سجود سے نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3422