Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ} :
باب: آیت «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: فَعَزَّزْنَا: شَدَّدْنَا، يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ: كَانَ حَسْرَةً عَلَيْهِمُ اسْتِهْزَاؤُهُمْ بِالرُّسُلِ، أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ: لَا يَسْتُرُ ضَوْءُ أَحَدِهِمَا ضَوْءَ الْآخَرِ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُمَا ذَلِكَ، سَابِقُ النَّهَارِ: يَتَطَالَبَانِ حَثِيثَيْنِ، نَسْلَخُ: نُخْرِجُ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، وَيَجْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، مِنْ مِثْلِهِ: مِنَ الْأَنْعَامِ، فَكِهُونَ: مُعْجَبُونَ، جُنْدٌ مُحْضَرُونَ: عِنْدَ الْحِسَابِ، وَيُذْكَرُ عَنْ عِكْرِمَةَ: الْمَشْحُونِ: الْمُوقَرُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: طَائِرُكُمْ: مَصَائِبُكُمْ، يَنْسِلُونَ: يَخْرُجُونَ، مَرْقَدِنَا: مَخْرَجِنَا، أَحْصَيْنَاهُ: حَفِظْنَاهُ مَكَانَتُهُمْ وَمَكَانُهُمْ وَاحِدٌ.
‏‏‏‏ اور مجاہد نے کہا کہ «فعززنا‏» ای «شددنا‏» یعنی ہم نے زور دیا۔ «يا حسرة على العباد‏» یعنی قیامت کے دن کافر اس پر افسوس کریں گے (یا فرشتے افسوس کریں گے) کہ انہوں نے دنیا میں پیغمبروں پر ٹھٹھا مارا۔ «أن تدرك القمر‏» کا یہ مطلب ہے کہ سورج چاند کی روشنی نہیں چھپاتا اور نہ چاند سورج کی۔ «سابق النهار‏» کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے پیچھے رواں دواں ہیں۔ «نسلخ‏» ہم رات میں سے دن نکال لیتے ہیں اور دونوں چل رہے ہیں۔ «وخلقنالهم من مثله» سے مراد چوپائے ہیں۔ «فكهون‏» خوش و خرم (یا دل لگی کر رہے ہوں گے) «جند محضرون‏» یعنی حساب کے وقت حاضر کئے جائیں گے۔ اور عکرمہ سے منقول ہے «مشحون‏» کا معنی بوجھل، لدی ہوئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «طائركم‏» یعنی تمہاری مصیبتیں (یا تمہارا نصیبہ)۔ «ينسلون‏» کا معنی نکل پڑیں گے۔ «مرقدنا‏» نکلنے کی جگہ سے (خوابگاہ یعنی قبر سے)۔ «أحصيناه‏» ہم نے اس کو محفوظ کر لیا ہے۔ «مكانتهم» اور «مكانهم» دونوں کا معنی ایک ہی ہے یعنی اپنے ٹھکانوں میں، گھروں میں۔
حدیث نمبر: 4802
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَتَدْرِي أَيْنَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ سورة يس آية 38".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آفتاب غروب ہونے کے وقت میں مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوذر! تمہیں معلوم ہے یہ آفتاب کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم‏» کہ اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے، یہ زبردست علم والے کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔