معجم صغير للطبراني
كِتَابُ الْمَنَاقِبُ
مناقب کا بیان
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 910
حَدَّثَنَا أَبُو هِنْدَ يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُجْرِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيُّ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ حُجْرِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ يَحْيَى ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، قَالَ:" لَمَّا بَلَغَنَا ظُهُورُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ خَرَجْتُ وَافِدًا عَنْ قَوْمِي حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَلَقِيتُ أَصْحَابَهُ قَبْلَ لِقَائِهِ، فَقَالُوا: قَدْ بَشَّرَنَا بِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَبْلَ أَنْ تَقْدَمَ عَلَيْنَا بِثَلاثَةِ أَيَّامٍ، فَقَالَ: قَدْ جَاءَكُمْ وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ، ثُمَّ لَقِيتُهُ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَرَحَّبَ بِي، وَأَدْنَى مَجْلِسِي، وَبَسَطَ لِي رِدَاءَهُ، فَأَجْلَسَنِي عَلَيْهِ، ثُمَّ دَعَا فِي النَّاسِ، فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ، وَأَطْلَعَنِي مَعَهُ وَأَنَا مِنْ دُونِهِ، ثُمَّ حَمِدَ اللَّهَ، وَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، هَذَا وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ، أَتَاكُمْ مِنْ بِلادٍ بَعِيدَةٍ مِنْ بِلادِ حَضْرَمَوْتَ طَائِعًا غَيْرَ مُكْرَهٍ، بَقِيَّةُ أَبْنَاءِ الْمُلُوكِ، بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ يَا وَائِلُ، وَفِي وَلَدِكَ، ثُمَّ نزل، وَأَنْزَلَنِي مَعَهُ، وَأَنْزَلَنِي مَنْزِلا شَاسِعًا عَنِ الْمَدِينَةِ، وَأَمَرَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ أَنْ يُبَوِّئَنِي إِيَّاهُ، فَخَرَجْتُ، وَخَرَجَ مَعِي حَتَّى إِذَا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، قَالَ: يَا وَائِلُ، إِنَّ الرَّمْضَاءَ قَدْ أَصَابَتْ بَاطِنَ قَدَمِي، فَأَرْدِفْنِي خَلْفَكَ، فَقُلْتُ: مَا أَضَنُّ عَلَيْكَ بِهَذِهِ النَّاقَةِ، وَلَكِنْ لَسْتَ مِنْ أَرْدَافِ الْمُلُوكِ، وَأَكْرَهُ أَنْ أُعَيَّرَ بِكَ، قَالَ: فَأَلْقِ إِلَيَّ حِذَاءَكَ أَتَوَقَّى بِهِ مِنْ حَرِّ الشَّمْسِ، قَالَ: مَا أَضَنُّ عَلَيْكَ بِهَاتَيْنِ الْجَلْدَتَيْنِ، وَلَكِنْ لَسْتَ مِمَّنْ يَلْبَسُ لِبَاسَ الْمُلُوكِ، وَأَكْرَهُ أَنْ أُعَيَّرَ بِكَ، فَلَمَّا أَرَدْتُ الرُّجُوعَ إِلَى قَوْمِي أَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِكُتُبٍ ثَلاثَةٍ، مِنْهَا كِتَابٌ لِي خَالِصٌ: فَضَّلَنِي فِيهِ عَلَى قَوْمِي، وَكِتَابٌ لأَهْلِ بَيْتِي بِأَمْوَالِنَا هُنَاكَ، وَكِتَابٌ لِي وَلِقَوْمِي فِي كِتَابِي الْخَالِصِ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى الْمُهَاجِرِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ أَنَّ وَائِلا يُسْتَسْعَى وَيَتَرَفَّلُ عَلَى الأَقْوَالِ حَيْثُ كَانُوا فِي مِنْ حَضْرَمَوْتَ، وَفِي كِتَابِي الَّذِي لِي وَلأَهْلِ بَيْتِي، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى الْمُهَاجِرِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ لأَبْنَاءِ مَعْشَرِ أَبْنَاءِ ضَمْعَاجٍ أَقْوَالِ شَنُوءَةَ بِمَا كَانَ لَهُمْ فِيهَا مِنْ مُلْكٍ وَمَوَامِرَ، مَرَامِرَ، وَعِمْرَانَ وَبَحْرٍ وَمِلْحٍ وَمَحْجِرٍ، وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ مَالٍ اتَّرَثُوهُ بَايَعْتُ، وَمَا لَهُمْ فِيهَا مِنْ مَالٍ بِحَضْرَمَوْتَ أَعْلاهَا وَأَسْفَلَهَا مِنِّي الذِّمَّةُ وَالْجِوَارُ، اللَّهُ لَهُمْ جَارٌ، وَالْمُؤْمِنُونَ عَلَى ذَلِكَ أَنْصَارٌ، وَفِي الْكِتَابِ الَّذِي لِي وَلِقَوْمِي، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَالأَقْوَالِ الْعَيَاهِلَةِ مِنْ حَضْرَمَوْتَ بِإِقْامِ الصَّلاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ مِنَ الصِّرْمَةِ التَّيْمَةِ وَلِصَاحِبِهَا التَّبِعَةُ لا جَلَبَ وَلا جَنَبَ وَلا شِغَارَ وَلا وِرَاطَ فِي الإِسْلامِ، لِكُلِّ عَشَرَةٍ مِنَ السَّرَايَا مَا تَحْمِلُ الْقِرَابُ مِنَ التَّمْرِ مَنْ أَجْبَا فَقَدْ أَرْبَا، وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ، فَلَمَّا مَلَكَ مُعَاوِيَةُ بَعَثَ رَجُلا مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ: بُسْرُ بْنُ أَبِي أَرْطَاةَ، فَقَالَ لَهُ: قَدْ ضَمَمْتُ إِلَيْكَ النَّاحِيَةَ، فَاخْرُجْ بِجَيْشِكَ فَإِذَا تَخَلَّفْتَ أَفْوَاهَ الشَّامِ فَضَعْ سَيْفَكَ فَاقْتُلْ مَنْ أَبَى بَيْعَتِي حَتَّى تَصِيرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ثُمَّ ادْخُلِ الْمَدِينَةَ فَاقْتُلْ مَنْ أَبِي بَيْعَتِي، ثُمَّ اخْرُجْ إِلَى حَضْرَمَوْتَ فَاقْتُلْ مَنْ أَبَى بَيْعَتِي، وَإِنْ أَصَبْتَ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ فَأْتِنِي بِهِ، فَفَعَلَ وَأَصَابَ وَائِلا حَيًّا، فَجَاءَ بِهِ إِلَيْهِ، فَأَمَرَ مُعَاوِيَةُ أَنْ يَتَلَقَّى، وَأَذِنَ لَهُ، فَأُجْلِسَ مَعَهُ عَلَى سَرِيرٍ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: أَسَرِيرِي هَذَا أَفْضَلُ أَمْ ظَهْرِ نَاقَتِكَ؟ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، كُنْتُ حَدِيثَ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ وَكُفْرٍ، وَكَانَتْ تِلْكَ سِيرَةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَدْ أَتَانَا اللَّهُ بِالإِسْلامِ، فَبِسِيرَةِ الإِسْلامِ مَا فَعَلْتُ، قَالَ: فَمَا مَنَعَكَ مِنْ نَصْرِنَا، وَقَدِ اتَّخَذَكَ عُثْمَانَ ثِقَةً وَصِهْرًا؟ قُلْتُ: إِنَّكَ قَاتَلْتَ رَجُلا هُوَ أَحَقُّ بِعُثْمَانَ مِنْكَ، قَالَ: وَكَيْفَ يَكُونُ أَحَقَّ بِعُثْمَانَ مِنِّي، وَأَنَا أَقْرَبُ إِلَى عُثْمَانَ فِي النَّسَبِ؟ قُلْتُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ آخَى بَيْنَ عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ، فَالأَخُّ أَوْلَى مِنِ ابْنِ الْعَمِّ، وَلَسْتُ أُقَاتِلُ الْمُهَاجِرِينَ، قَالَ: أَوَ لَسْنَا مُهَاجِرِينَ؟ قُلْتُ: أَوَ لَسْنَا قَدِ اعْتَزَلْنَاكُمَا جَمِيعًا، وَحُجَّةٌ أُخْرَى: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَفَعَ رَأْسَهُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، وَقَدْ حَضَرَهُ جَمْعٌ كَثِيرٌ، ثُمَّ رَدَّ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، فَقَالَ: أَتَتْكُمُ الْفِتَنُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، فَشَدَّدَ أَمْرَهَا وَعَجَّلَهُ وَقَبَّحَهُ فَقُلْتُ لَهُ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْفِتَنُ؟ فَقَالَ: يَا وَائِلُ، إِذَا اخْتَلَفَ سَيْفَانِ فِي الإِسْلامِ فَاعْتَزِلْهُمَا، فَقَالَ: أَصْبَحْتَ شِيعِيًّا؟، قُلْتُ: لا، وَلَكِنِّي أَصْبَحْتُ نَاصِحًا لِلْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: لَوْ سَمِعْتَ ذَا وَعَلَّمْتَهُ مَا أَقْدَمْتُكَ، قُلْتُ: أَوَ لَيْسَ قَدْ رَأَيْتَ مَا صَنَعَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ عِنْدَ مَقْتَلِ عُثْمَانَ انْتَهَى بِسَيْفِهِ إِلَى صَخْرَةٍ، فَضَرَبَهُ بِهَا حَتَّى انْكَسَرَ، فَقَالَ: أُولَئِكَ قَوْمٌ يَحْمِلُونَ عَلَيْنَا، فَقُلْتُ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، مَنْ أَحَبَّ الأَنْصَارَ فَبِحُبِّي، وَمَنْ أَبْغَضَ الأَنْصَارَ فَبِبُغْضِي، قَالَ: اخْتَرْ أَيَّ الْبِلادِ شِئْتَ، فَإِنَّكَ لَسْتَ بِرَاجِعٍ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، فَقُلْتُ: عَشِيرَتِي بِالشَّامِ، وَأَهْلُ بَيْتِي بِالْكُوفَةِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ خَيْرٌ مِنْ عَشَرَةٍ مِنْ عَشِيرَتِكَ، فَقُلْتُ: مَا رَجَعْتُ إِلَى حَضْرَمَوْتَ سُرُورًا بِهَا، وَمَا يَنْبَغِي لِلْمُهَاجِرِ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي هَاجَرَ مِنْهُ إِلا مِنْ عِلَّةٍ، قَالَ: وَمَا عِلَّتُكَ؟، قُلْتُ: قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتَنِ، فَحَيْثُ اخْتَلَفْتُمِ اعْتَزَلْنَاكُمْ، وَحَيْثُ اجْتَمَعْتُمْ جِئْنَاكُمْ، فَهَذِهِ الْعِلَّةُ، فَقَالَ: إِنِّي قَدْ وَلَّيْتُكَ الْكُوفَةَ فَسِرْ إِلَيْهَا، فَقُلْتُ: مَا إِلَيَّ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لأَحَدٍ حَاجَةٌ، أَمَا رَأَيْتَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ قَدْ أَرَادَنِي فَأَبَيْتُ، وَأَرَادَنِي عُمَرُ فَأَبَيْتُ، وَأَرَادَنِي عُثْمَانُ فَأَبَيْتُ، وَلَمْ أَدَعْ بَيْعَتَهُمْ، قَدْ جَاءَنِي كِتَابُ أَبِي بَكْرٍ حَيْثُ ارْتَدَّ أَهْلُ نَاحِيَتِنَا، فَقُمْتُ فِيهِمْ حَتَّى رَدَّهُمُ اللَّهُ إِلَى الإِسْلامِ بِغَيْرِ وِلايَةٍ، فَدَعَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ، فَقَالَ لَهُ: سِرْ فَقَدْ وَلَّيْتُكَ الْكُوفَةَ، وَسِرْ بِوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ فَأَكْرِمْهُ وَاقْضِ حَوَائِجَهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَسَأْتَ بِيَ الظَّنَّ، تَأْمُرُنِي بِإِكْرَامِ رَجُلٍ قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَكْرَمَهُ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَأَنْتَ؟ فَسُرَّ مُعَاوِيَةُ بِذَلِكَ مِنْهُ، فَقَدِمْتُ مَعَهُ الْكُوفَةَ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ مَاتَ"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ حُجْرٍ: الْوِرَاطُ: الْعَمَارُ، وَالأَقْوَالُ: الْمُلُوكُ، الْعَيَاهِلَةُ: الْعُظَمَاءُ
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر ہونا معلوم ہوا تو میں اپنی قوم کی طرف سے وفد لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینے آیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو ملا تو وہ مجھے کہنے لگے: آپ کے آنے سے تین دن قبل انہوں نے ہمیں آپ کے متعلق خوشخبری دی تھی، اور کہا: ”تمہارے پاس وائل بن حجر آئے گا۔“ (وائل کہتے ہیں) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خوش آمدید کہا اور مجھے اپنے قریب بٹھایا اور میرے لیے اپنی چادر بچھائی اور اس پر مجھے بٹھایا، پھر لوگوں کو بلایا، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور مجھے بھی منبر پر چڑھایا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور فرمایا: ”لوگو! یہ وائل بن حجر ہیں، یہ تمہارے پاس بڑے دور کے شہروں سے آیا ہے، اور یہ اپنی خوشی سے آیا ہے، اسے کسی نے مجبور نہیں کیا، اور یہ بادشاہوں کی اولاد سے باقی رہے ہوئے ہیں۔ اے وائل! تجھ میں اور تیری اولاد میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر آئے اور مجھے بھی اتار لیا، اور مجھے مدینے سے دور ایک جگہ میں مہمان رکھا اور سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مجھے ٹھہرائے، میں نکلا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی میرے ساتھ تھے، جب ہم کچھ راستہ طے کر چکے تو انہوں نے مجھے کہا: وائل! میرے پاؤں کے اندر تک شدید گرمی پہنچ چکی ہے اس لیے آپ مجھے بھی ساتھ پیچھے بٹھا لیں، میں نے کہا: میں تم پر اس اونٹنی سے بخل نہیں کرتا لیکن میں بادشاہوں کے ارداف سے نہیں، اور میں نہیں چاہتا کہ یہ عار دلایا جاؤں کہ اس پر تجھے بھی سوار کروں۔ پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اپنا جوتا ہی دے دو تاکہ میں سورج کی گرمی سے بچ سکوں۔ تو میں نے کہا: میں ان جوتوں سے تجھ سے بخل نہیں کرتا لیکن میں بادشاہوں کا لباس تمہیں پہناؤں تو مجھے عار دلائی جائے گی کہ یہ شاہی لباس گھٹیا لوگوں کو پہنا رہا ہے۔ جب میں نے اپنی قوم کے پاس واپس آنا چاہا تو مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین گرامی نامے عطا کئے۔ ایک میرا تھا جس میں مجھے خصوصی طور پر فضیلت دی، اور ایک میرے اہلِ بیت کے لیے تھا جس میں ان کے لیے وہاں کے اموال ہوں گے، اور ایک میرے لیے اور میری قوم کے لیے تھا۔ جو خط صرف میرے لیے تھا اس میں تھا: ” «بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مہاجرین ابی امیہ کی طرف کہ وائل صدقات وغیرہ وصول کریں گے، اور قوم کے سردار ہوں گے، وہ حضرموت سے جس جگہ بھی ہوں سردار ہوں گے۔“ جو خط میرے لیے اور میرے اہلِ بیت کے لیے تھا اس میں یہ تھا: ” «بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مہاجرین ابی امیہ کی طرف جو معشر، ضمعاج، اور شنوئہ کے سردار ہیں، ان کے لیے بادشاہی اور راستے، اسی طرح آبادی، سمندر، نمک، اور حفاظتی مقامات بھی ان کے ہیں۔ ان کے جو مال ہیں وہ ان کے وارث ہوں گے، اور جو بھی حضرموت کی اوپر والی جانب یا نیچے والی وہ مال ان کے ہیں۔ میری طرف سے یہ معاہدہ اور پناہ ہے، اے اللہ! تو ان کا ہمسایہ ہے اور مسلمان بھی ان کے معاون ہوں گے۔“ اور جو خط ان کے اور ان کی قوم کے متعلق تھا اس میں یہ تھا: ” «بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وائل کی طرف اور مہاجرین ابوامیہ کے سرداروں اور بڑے لوگوں کی طرف جو حضرموت میں ہیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، جو اونٹوں اور بکریوں وغیرہ کے ریوڑ سے اور ان کے بچوں سے بھی لی جائے۔ عامل اور حاکم مال کو ادھر ادھر کھینچ کر نہ لے جائیں، اور عامل لوگوں کو اپنے پاس نہ بلائے، نکاحِ شغار بلا مہر جائز نہیں، دھوکہ نہ کریں نہ کسی کو فریب دیں، یہ اسلام میں درست نہیں۔ سرایا میں سے ہر دسی کے لیے جو کچھ وہ اٹھا کر برابر برابر کھجوریں ہیں جس نے پکنے سے پہلے کھیتی بیچی تو اس نے گویا سود کا معاملہ کیا، اور ہر مسکر حرام ہے۔“ پھر جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بادشاہ بنے تو بسر بن ارطاۃ نام کا قریش سے ایک آدمی لشکر دے کر بھیجا اور کہا: میں نے اس علاقے کو اپنے کنٹرول میں لیا ہوا ہے، تم اپنا لشکر لے کر شام کے مونہوں سے نکل جاؤ، جب شام تم سے پیچھے رہ جائے تو دیکھو جو شخص بھی میری اطاعت سے انکار کرے اسے مار ڈالو، جب مدینے میں جاؤ تو وہاں بھی جو شخص میری اطاعت سے انکار کرے اس کو مار ڈالو، پھر حضرموت جاؤ وہاں بھی جو شخص میری اطاعت سے انکار کرے اسے مار ڈالو، اگر تمہیں وائل نظر آئے تو اس کو میرے پاس لے آؤ، بسر بن ارطاۃ نے اسی طرح کیا اور دیکھا وائل زندہ ہیں تو انہیں وہ ان کے پاس لے آیا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے ملاقات کے لیے بلایا اور اجازت دی اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا یہ میرا تخت بہتر ہے یا تیری اونٹنی کی پیٹھ؟ تو میں نے کہا: امیر المؤمنین! میں نیا نیا جاہلیت سے مسلمان ہوا تھا اور جاہلیت کا رسم و رواج یہی تھا، اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام سے سرفراز فرمایا تو آپ نے اسلام کی سیرت اور طریقے کی وجہ سے مجھ سے یہ سلوک کیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اچھا ہماری مدد کرنے سے تمہیں کیا چیز مانع ہے اور تو نے عثمان پر اعتماد کیا انہیں اپنا سسرال بنایا؟ میں نے کہا: آپ نے ایسے آدمی سے جنگ کی جو بہ نسبت عثمان تمہارا زیادہ حق دار تھا۔ اور عثمان کا مجھ سے زیادہ حقدار اور کون ہو سکتا ہے۔ اور میں اس کا زیادہ حق دار ہوں کیونکہ بھائی نسبت چچازاد کے زیادہ حق دار ہوتا ہے۔ اور میں مہاجرین سے جنگ نہیں کرتا۔ تو انہوں نے کہا: کیا ہم مہاجرین نہیں ہیں؟ میں نے کہا: اسی لیے ہم تم سب سے الگ رہے، اور ایک اور دلیل ہے: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک مشرق کی طرف اٹھایا، بہت سارے لوگ وہاں تھے، پھر اپنی نظر واپس کر لی اور فرمایا: ”تمہارے پاس ایسے فتنے آئیں گے جو اندھیری رات کو توڑ دیں گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فتنوں کی بات کو بہت شدت سے ذکر کیا، اور ان کے جلدی آنے کی بات اور ان کی برائی ذکر کی، میں کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون لوگ ہوں گے اور کون سے فتنے ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے وائل! جب اسلام میں دو تلواریں مختلف چلنا شروع کر دیں تو دونوں سے الگ رہنا۔“ تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم شیعہ ہو گئے ہو، میں نے کہا: نہیں! بلکہ میں مسلمانوں کا خیر خواہ بن گیا ہوں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو یہ جانتا تھا اور تو نے یہ بات سنی تھی، تو پھر مجھے کونسی چیز لائی تھی، میں کہا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ محمد بن مسلمہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت کیا کہا تھا؟ وہ اپنی تلوار لے کر گئے، جاکر ایک پتھر پر ماری اور توڑ دی۔ پھر انہوں نے کہا: یہ لوگ ہم پر حملہ کرتے ہیں، میں نے کہا: پھر تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے متعلق کیا کرو گے: ”جس نے انصار کو دوست رکھا تو وہ مجھے دوست رکھنے کی وجہ سے ہے، اور جس نے انصار کو برا سمجھا تو اس نے مجھے برا سمجھنے کی وجہ سے برا سمجھا۔“ انہوں نے کہا: اب میں تمہیں حضرموت نہیں بھیجوں گا، اس لیے کوئی شہر پسند کر لو، میں تمہیں وہاں بھیجوں گا۔ میں نے کہا: میرے قبیلے کے لوگ شام میں ہیں اور میرے گھر والے کوفے میں ہیں، انہوں نے کہا: قبیلے والے دس آدمیوں سے تیرے گھر والا ایک آدمی بہتر ہے۔ میں نے کہا: میں حضرموت کو خوشی سے نہیں جاتا اور مسلمان مہاجر کو لائق نہیں کہ وہ اپنی ہجرت کی جگہ کو واپس جائے، ہاں کوئی وجہ ہو تو جاسکتا ہے۔ انہوں نے پوچھا: تیرے لیے کونسی وجہ ہے؟ میں نے کہا: میرے لیے اس کی وجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنوں کے متعلق فرمان ہے۔ تو تم نے جہاں بھی اختلاف کیا ہم تم سے الگ ہو گئے، اور جب تم اکٹھے ہو گئے تو ہم تمہارے پاس اکٹھے ہو گئے، تو یہ علت ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: میں تجھے کوفے کا حاکم بناتا ہوں، لہٰذا ادھر چلے جاؤ، میں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی مجھ سے اس چیز کا ارادہ کیا مگر میں نے انکار کر دیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہی ارادہ کیا تو میں نے ان سے بھی انکار کر دیا، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی یہی چاہا تھا مگر میں نے پھر انکار کر دیا اور میں نے ان کی بیعت بھی ترک نہیں کی۔ میرے پاس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خظ آیا تھا جب کہ ہمارے علاقے کے لوگ مرتد ہو گئے تھے، تو میں کھڑا ہوگیا یہاں تک اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام کی طرف ولایت کے بغیر ہی واپس کر دیا۔ پھر انہوں نے عبدالرحمٰن بن الحکم کو بلاکر کہا: میں تمہیں کوفے کا گورنر بناتا ہوں اور وائل کو لے جاؤ، ان کی عزت افزائی کرو اور ان کی ضرورتیں پوری کرو۔ انہوں نے کہا: امیر صاحب! آپ نے نے میرے متعلق اچھا گمان نہیں رکھا، تم مجھے ایسے شخص کی عزت افزائی کا حکم دے رہے ہو جس کی عزت افزائی کرتے ہوئے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیکھا اور سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم کو اور آپ کو بھی، تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اس بات سے بڑے خوش ہوئے۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں ان کے ساتھ کوفے میں آیا، پھر تھوڑے عرصہ بعد وہ فوت ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه البزار فى «مسنده» برقم: 4487، وأورده ابن حجر فى "المطالب العالية"، 1559، 1818، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 117، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 1176
قال الهيثمي: فيه محمد بن حجر وهو ضعيف، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (9 / 374)»
حكم: إسناده ضعيف