صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ} :
باب: آیت کی تفسیر ”یہاں تک کہ جب ان فرشتوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھنے لگتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے وہ کہتے ہیں کہ حق اور (واقعی) بات کا حکم فرمایا ہے اور وہ عالیشان ہے سب سے بڑا ہے“۔
حدیث نمبر: 4800
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ:" إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا؟ قَالَ: رَبُّكُمْ، قَالُوا: لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ، وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ، فَحَرَفَهَا وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ، فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، ثُمَّ يُلْقِيهَا الْآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الْكَاهِنِ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُقَالُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِي سَمِعَ مِنَ السَّمَاءِ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، کہا کہ میں نے عکرمہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو سن کر جھکتے ہوئے عاجزی کرتے ہوئے اپنے بازو پھڑپھڑاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان انہیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر چلانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور وہ بہت اونچا، سب سے بڑا ہے پھر ان کی یہی گفتگو چوری چھپے سننے والے شیطان سن بھاگتے ہیں، شیطان آسمان کے نیچے یوں نیچے اوپر ہوتے ہیں، سفیان نے اس موقع پر ہتھیلی کو موڑ کر انگلیاں الگ الگ کر کے شیاطین کے جمع ہونے کی کیفیت بتائی کہ اس طرح شیطان ایک کے اوپر ایک رہتے ہیں۔ پھر وہ شیاطین کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور اپنے نیچے والے کو بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ کلمہ ساحر یا کاہن تک پہنچتا ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ یہ کلمہ اپنے سے نیچے والے کو بتائیں آگ کا گولا انہیں آ ڈبوچتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ بتا لیتے ہیں تو آگ کا انگارا ان پر پڑتا ہے، اس کے بعد کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے (ایک بات جب اس کاہن کی صحیح ہو جاتی ہے تو ان کے ماننے والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے کہ کیا اسی طرح ہم سے فلاں دن کاہن نہیں کہا تھا، اسی ایک کلمہ کی وجہ سے جو آسمان پر شیاطین نے سنا تھا کاہنوں اور ساحروں کی بات کو لوگ سچا جاننے لگتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4800 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4800
حدیث حاشیہ:
آج کے سائنسی دور میں بھی ایسے کمزور اعتقاد والے بکثرت موجود ہیں جو جوتشیوں کی باتوں میں آ کر اپنا سب کچھ برباد کر ڈالتے ہیں۔
مسلمانوں میں بھی ایسے کمزور خیال کے عوام موجود ہیں حالانکہ یہ اسلامی تعلیم کے سخت خلاف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4800
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4800
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کا سبب ورود ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ستارہ ٹوٹا جس کی وجہ سے ماحول روشن ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے پوچھا:
”دور جاہلیت میں جب ستارہ ٹوٹتا تھا تو تم کیا خیال کرتے تھے؟“ انھوں نے عرض کی:
ویسے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں لیکن ہمارے خیال کے مطابق جس رات کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا یا مر جاتا تو یہ کیفیت پیدا ہوتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ایسا نہیں ہے کہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے ستارہ ٹوٹتا ہو، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمانوں میں کرتا ہے۔
۔
۔
“ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5819(2229)
2۔
بہرحال آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت شفاعت کے سلسلے میں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اسکے ہاں سفارش اسے فائدہ دے سکتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ خود اجازت دے۔
“ (سبا 34: 23)
سفارش اللہ کی بارگاہ میں اتنی عالی مرتبہ اور بڑی چیز ہے کہ وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر مقرب فرشتوں کو دم مارنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ کسی اوربڑی شخصیت ہی کو۔
وہاں تو یہ عالم ہے کہ فرشتے اللہ کا حکم سن کر بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4800
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3989
´باب:۔۔۔`
اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی حدیث ۱؎ روایت کی اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے قول «حتى إذا فزع عن قلوبهم» ”یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے“ (سورۃ سبا: ۲۳) ۲؎ سے یہی مراد ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3989]
فوائد ومسائل:
لفظ (فزع) ف کے ضمہ زا مشدد کے کسرہ کےساتھ ہے۔
جبکہ ایک قراءت میں مروی ہے۔
(یعنی ر غیر منقوط اور غ منقوط کےساتھ۔
) ابن عامر اور یعقوب کی قراءت میں (زمنقوط کےساتھ) (عربی میں لکھا ہے) بصیغہ ماضی آیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3989
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث194
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی تابعداری میں بطور عاجزی اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، جس کی آواز کی کیفیت چکنے پتھر پر زنجیر مارنے کی سی ہوتی ہے، پس جب ان کے دلوں سے خوف دور کر دیا جاتا ہے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواب دیتے ہیں: اس نے حق فرمایا، اور وہ بلند ذات والا اور بڑائی والا ہے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چوری سے باتیں سننے والے (شیاطین) جو اوپر تلے رہتے ہیں اس کو سنتے ہیں، اوپر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 194]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ تعالیٰ کا کلام آواز و الفاظ سے ہوتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں۔
(2)
فرشتے اللہ کی عظمت و کبرائی کا شعور رکھتے ہیں، اس لیے وہ اللہ کا کلام سن کر فروتنی کا اظہار کرتے ہیں۔
لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکام سن کر زیادہ لرزاں و ترساں رہنا چاہیے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے زیادہ مرتبہ ومقام عطا کیا ہے۔
(3)
اوپر والے جِن نیچے والوں جنوں کو وہ بات بتاتے ہیں جو انہوں نے اپنے اوپر موجود فرشتوں سے سنی ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام اوپر سے نازل ہوتا ہے۔
اس سے اللہ تعالٰی کا علو اور اوپر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی کا اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا تصور درست نہیں، البتہ اپنے علم کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے، یعنی ہر چیز سے وہ باخبر ہے۔
(4)
جنوں کو بھگانے کے لیے شعلے مارے جاتے ہیں، یہ شعلے جنوں کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔
(5)
کاہنوں اور نجومیوں کا تعلق شیاطین سے ہوتا ہے اس لیے علم نجوم، جوتش وغیرہ سب شیطانی علوم ہیں۔
مسلمانوں کو ان پر یقین نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی چیزوں کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(6)
کاہنوں اور نجومیوں کی باتیں اکثر غلط اور جھوٹ ہوتی ہیں، کبھی کوئی بات صحیح نکل آتی ہے اور وہ بھی وہ بات ہے جو کسی شیطان نے کسی فرشتے سے سن کر نجومی کو بتا دی ہوتی ہے، اس لیے ان پر اعتماد کرنا درست نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو کسی نجومی (یا رَمَّال)
کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحيح مسلم، السلام، باب تحريم الكهانة واتيان الكهان، حديث: 2230)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 194
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3223
´سورۃ سبا سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ آسمان پر کسی معاملے کا حکم و فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے عجز و انکساری کے ساتھ (حکم برداری کے جذبہ سے) اپنے پر ہلاتے ہیں۔ ان کے پر ہلانے سے پھڑپھڑانے کی ایسی آواز پیدا ہوتی ہے تو ان زنجیر پتھر پر گھسٹ رہی ہے، پھر جب ان کے دلوں کی گھبراہٹ جاتی رہتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: حق بات کہی ہے۔ وہی بلند و بالا ہے“، آپ نے فرمایا: ”شیاطین (زمین سے آسمان تک) یکے بعد دیگرے (اللہ کے احکام اور فیصلوں کو اچک کر ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3223]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ (سبأ: 23) کی طرف اشارہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3223
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1185
1185- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ سناتا ہے، تو فرشتے اس کے حکم کے سامنے سر کو جھکاتے ہوئے اپنے پر مارتے ہیں یوں جیسے زنجیر پتھر پر ماری جاتی ہے جب ان کے دلوں سے خوف کم ہوتا ہے، تو وہ دریافت کرتے ہیں: ”تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے“، تو دوسرے جواب دیتے ہیں: ”جو اس نے فرمایا ہے وہ حق ہے، بلند و برتر ہے“، پھر چوری چھپے سننے والے اس میں سے کوئی بات سن لیتے ہیں اور چوری چھپے سننے والے اس طرح ہوتے ہیں جس طرح وہ ایک دوسرے کے اوپر نیچے۔“ سفیان نے کرکے دکھایا کہ وہ ایسے ایک دوسرے کے اوپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1185]
فائدہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا ثابت ہوتا ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے، اس کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے، نیز اس حدیث میں فرشتوں کا آپس میں بات کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
نیز شیطانوں کی اسلام سے دشمنی کی انتہا ثابت ہوتی ہے، کہ ظالم شیطان اللہ تعالیٰ کی باتیں معلوم کرنے کی خاطر کتنی کوشش کرتے ہیں۔
نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ کاہن و جادوگر شیطان کی پیروی کرتے ہیں، اور یہ شیطان کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں، ان کی گمراہیاں امت مسلمہ پر بالکل واضح ہو چکی ہیں، افسوس کہ لوگ پھر بھی ان شیطانوں کے ساتھ غلط مقاصد کی غرض سے چمٹے ہوئے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1183
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4701
4701. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالٰی کسی حکم کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کا حکم بجا لانے کے لیے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں اور ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہو۔ (سفیان بن عیینہ کے علاوہ) دوسرے راویوں نے صفوان کے بعد ينفذهم ذلك الفاظ ذکر کیے ہیں، اس طرح اللہ تعالٰی فرشتوں تک اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے خوف زائل ہو جاتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے کیا فرمایا ہے؟ تو ایک دوسرے کو وہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حق فرمایا ہے اور وہ برتر و بزرگ ہے۔ (فرشتوں کی) یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں اور وہ اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔ راوی حدیث سفیان نے اپنے ہاتھ سے ان کی حالت بیان کی، انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کیں اور ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4701]
حدیث حاشیہ:
فرشتوں کے پر مارنے کا مطلب یہ کہ اپنی اطاعت اور تابعداری ظاہر کرتے ہیں ڈر جاتے ہیں۔
زنجیر جیسی آواز کے متعلق ابن مردویہ کی روایت میں حضرت انس ؓ سے اس کی صراحت ہے کہ جب اللہ پاک وحی بھیجنے کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے فرشتے ایسی آواز سنتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر چلے۔
جب فرشتوں کے دلوں سے خوف ہٹ جاتا ہے تو آپس میں اس ارشاد کا تذکرہ کرتے ہیں۔
طبرانی کی روایت میں یوں ہے جب اللہ وحی بھیجنے کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان لرزجاتا ہے اور آسمان والے اس کا کلام سنتے ہی بے ہوش ہوجاتے ہیں اور سجدے میں گر پڑتے ہیں۔
سب سے پہلے جبرائیل سر اٹھاتے ہیں۔
پروردگار جو چاہتا ہے وہ ان سے ارشاد فرماتا ہے۔
وہ حق تعالیٰ کا کلام سن کر اپنے مقام پر چلتے ہیں۔
جہاں جاتے ہیں فرشتے ان سے پوچھتے ہیں حق تعالیٰ نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں کہ ﴿الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ (سبا: 23)
ان حدیثوں سے پچھلے متکلمین کے تمام خیالات باطلہ رد ہوجاتے ہیں کہ اللہ کا کلام قدیم ہے اور وہ نفس ہے اور اس کے کلام میں آواز نہیں ہے۔
معلوم نہیں یہ ڈھونگ ان لوگوں نے کہاں سے نکالا ہے۔
شریعت سے تو صاف ثابت ہے کہ اللہ پاک جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اس کی آواز آسمان والے فرشتے سنتے ہیں اور اس کی عظمت سے لرز کر سجدے میں گر جاتے ہیں۔
سند میں حضرت علی بن عبد اللہ بن جعفر حافظ الحدیث ہیں۔
ان کے استاد ابن المہدی نے فر مایا کہ ابن المدینی رسول کریم ﷺ کی حدیث کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔
امام نسائی نے فرمایا کہ ابن المدینی کی پیدائش ہی اس خدمت کے لئے ہوئی تھی۔
ماہ ذی قعدہ 234ھ بعمر 73سال انتقال فرمایا۔
اسی طرح دوسرے بزرگ حضرت سفیان بن عیینہ حجة في الحدیث، زاہد، متورع تھے۔
107ھ میں کوفہ میں ان کی ولادت ہوئی 198ھ میں مکہ میں ان کا انتقال ہوا۔
رحمهم اللہ أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4701
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7481
7481. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فیصلے کے آگے اظہار عاجزی کرنے کے لیے اپنے پر مارتے ہیں، گویا ان کے پروں کی ایسی آواز ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔۔۔۔۔۔ شیخ بخاری علی بن مدینی نے کہا: سفیان کے علاوہ دوسرے رایوں نے ”ٖصفوان“ کو ”فا“ کو ساکن پڑھا ہے۔)۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ یہ حکم فرشتوں کو پہنچاتا ہے، ان کے دلوں سے جب خوف دور کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ”تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو وہ کہتے ہیں: حق فرمایا ہےاور وہ (اللہ) بہت بلند بہت بڑا ہے۔“ علی بن مدینی نے کہا: ہم سے سفیان نے ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی۔ اور کبھی سفیان نے یوں بیان کیا کہ عمرو نےکہا: میں نے عکرمہ سے سنا، (انہوں نےکہا:) ہم سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7481]
حدیث حاشیہ:
ان سندوں کوبیان کر کے حضرت امام بخاری نےیہ ثابت کیا کہ اوپر کی روایت جوعن کےساتھ ہے وہ متصل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7481
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4701
4701. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالٰی کسی حکم کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کا حکم بجا لانے کے لیے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں اور ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہو۔ (سفیان بن عیینہ کے علاوہ) دوسرے راویوں نے صفوان کے بعد ينفذهم ذلك الفاظ ذکر کیے ہیں، اس طرح اللہ تعالٰی فرشتوں تک اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے خوف زائل ہو جاتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے کیا فرمایا ہے؟ تو ایک دوسرے کو وہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حق فرمایا ہے اور وہ برتر و بزرگ ہے۔ (فرشتوں کی) یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں اور وہ اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔ راوی حدیث سفیان نے اپنے ہاتھ سے ان کی حالت بیان کی، انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کیں اور ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4701]
حدیث حاشیہ:
1۔
ادھر ادھر کا جوایک فقرہ سن لیا جاتا ہے تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کی قطعاً بندش کردی جائے۔
وہ چاہتا تو اس سے بھی روک سکتا تھا مگر یہ بات اس کی حکمت بالغہ کے مطابق نہ تھی آخر اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے طویل مہلت دی ہے اور گمراہ کرنے والے اسباب وسائل پر دسترس دی ہے۔
حالانکہ اللہ کو معلوم ہے کہ یہ شیاطین گمراہ کرنے اور بھٹکانے سے باز نہیں آئیں گے اس میں کچھ نہ کچھ حکمت تسلیم کرنا پڑےگی اس طرح ایک آدھی بات سننے میں بھی کوئی حکمت ضرور ہو گی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شیاطین ہزروں کی تعداد میں ان شہابوں سے ہلاک ہوتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی کوشش کو جاری رکھے ہوتے ہیں جیسا کہ کوہ ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے والے اپنی جان سے ہاتھ دھوتے رہتے ہیں لیکن یہ انجام دیکھ کر دوسرے اس کام کو ترک نہیں کرتے۔
واللہ اعلم۔
اس کی مزید تفصیل سورہ سبا آیت23:
کی تفسیر میں آئے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4701
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7481
7481. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فیصلے کے آگے اظہار عاجزی کرنے کے لیے اپنے پر مارتے ہیں، گویا ان کے پروں کی ایسی آواز ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔۔۔۔۔۔ شیخ بخاری علی بن مدینی نے کہا: سفیان کے علاوہ دوسرے رایوں نے ”ٖصفوان“ کو ”فا“ کو ساکن پڑھا ہے۔)۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ یہ حکم فرشتوں کو پہنچاتا ہے، ان کے دلوں سے جب خوف دور کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ”تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو وہ کہتے ہیں: حق فرمایا ہےاور وہ (اللہ) بہت بلند بہت بڑا ہے۔“ علی بن مدینی نے کہا: ہم سے سفیان نے ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی۔ اور کبھی سفیان نے یوں بیان کیا کہ عمرو نےکہا: میں نے عکرمہ سے سنا، (انہوں نےکہا:) ہم سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7481]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے مراد کسی چیز کے متعلق فرشتوں کو حکم دینا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت نواس بن سعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی گزشتہ احادیث میں وضاحت ہے۔
اور فرشتوں کا اظہار عاجزی کے پیش نظر اپنے پَروں کا مارنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اورحکم کو سنتے ہیں، نیز حروف وآواز پر مشتمل کلام ہی کو سنا جا سکتا ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس امر کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی حروف وآواز پر مشتمل ہے اور وہ سنا جا سکتا ہے لیکن وہ مخلوق کے کلام سے مشابہت نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ بھی حقیقی کلام کا اظہار کرتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں اور اظہار عاجزی کے لیے اپنے پَر مارتے ہیں جن سے ایسی آواز نکلتی ہے جیسا کہ سخت چٹان پر لوہے کی زنجیر کھینچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے اختتام پر کچھ اسناد ذکر کی ہیں۔
ان سے انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عکرمہ سے تدلیس کے شبہ کو دور کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ مذکورہ حدیث متصل سند سے مروی ہے اور اس میں تدلیس کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7481