معجم صغير للطبراني
كِتَابُ الْمَنَاقِبُ
مناقب کا بیان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نضر بن کنانہ کی اولاد سے ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 851
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَائِلَةَ الأَصْبَهَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ الْجِفْشِيشِ الْكِنْدِيِّ ، قَالَ: جَاءَ قَوْمٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا:" أَنْتَ مِنَّا وَادَّعُوهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لا نَنْبُوا أُمَّنَا، وَلا نَنْتَفِي مِنْ أَبِينَا، نَحْنُ مِنْ وَلَدِ النَّضْرِ بْنِ كِنَانَةَ"، لا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ، إِلا عَنْ جِفْشِيشٍ، وَلَهُ صُحْبَةُ، وَهُوَ الَّذِي خَاصَمَ الأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ، إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الأَرْضِ، فنزلت فِيهِمَا هَذِهِ الآيَةُ: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77 الآيَةَ لا يُرْوَى إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ تَفَرَّدَ بِهِ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ
جفشیش الکندی کہتے ہیں: کچھ لوگ کندہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو کہنے لگے کہ آپ ہم سے ہیں۔ انہوں نے آپ کا دعویٰ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماایا: ”ہم لوگ اپنی ماؤں پر تہمت نہیں لگاتے، اور ہم اپنے باپ سے نفی نہیں کرتے، ہم نضر بن کنانہ کی اولاد سے ہیں۔“ یہ حدیث صرف جفشیش سے مروی ہے اور وہ صحابی ہیں، اور یہی وہ صحابی ہیں جو اشعث بن قیس کا ایک زمین کے متعلق جھگڑا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں کے متعلق یہ آیت اتری: «﴿إِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ أَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيْلًا﴾» ”بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی قیمت دیتے لیتے ہیں۔“ (آل عمران: 77)۔
تخریج الحدیث: «حسن، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 2190، 2191، والطبراني فى «الصغير» برقم: 219، وله شاهد من حديث الأشعث بن قيس الكندي أخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 2612، قال الشيخ الألباني: حسن، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22255، 22261، قال شعيب الارناؤط: صحيح، والطبراني فى «الكبير» برقم: 645، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1145
قال الهيثمي: فيه إسماعيل بن عمرو البجلي ضعفه أبو حاتم والدارقطني ووثقه ابن حبان وبقية رجاله ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (1 / 195)»
حكم: حسن