حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَوْلَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَنَى بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَأَشْبَعَ النَّاسَ خُبْزًا وَلَحْمًا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى حُجَرِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ صَبِيحَةَ بِنَائِهِ، فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِنَّ، وَيُسَلِّمْنَ عَلَيْهِ، وَيَدْعُو لَهُنَّ، وَيَدْعُونَ لَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ رَأَى رَجُلَيْنِ جَرَى بِهِمَا الْحَدِيثُ، فَلَمَّا رَآهُمَا رَجَعَ عَنْ بَيْتِهِ، فَلَمَّا رَأَى الرَّجُلَانِ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ عَنْ بَيْتِهِ، وَثَبَا مُسْرِعَيْنِ، فَمَا أَدْرِي أَنَا أَخْبَرْتُهُ بِخُرُوجِهِمَا أَمْ أُخْبِرَ، فَرَجَعَ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ وَأَرْخَى السِّتْرَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَأُنْزِلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ. وَقَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، سَمِعَ أَنَسًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4794
حدیث حاشیہ:
1۔
آیت حجاب کے بعد سورہ نور کی آیات نازل ہوئیں تو آیت 27۔
کی روسے حجاب سے متعلق یہ حکم تمام مسلم گھرانوں میں نافذ کردیا گیا کہ کوئی شخص بھی کسی دوسرے کے گھر بلا اجازت داخل نہ ہوا کرے۔
2۔
آیت حجاب میں ضمناً کھانے کے متعلق کچھ ہدایات دی گئیں ایک یہ کہ صاحب خانہ جب کھانے پر بلائے تو تمھیں اس کے ہاں جانا چاہیے اس کا بلانا ہی اجازت ہے دوسری یہ کہ جس وقت بلایا جائے۔
اسی وقت آؤ پہلے آنے کی زحمت نہ کرو۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ پہلے آکر دھرنا مار کر بیٹھ جاؤ اور کھانا پکنے کا انتظار کرتے رہو۔
یہ بات بھی صاحب خانہ کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے تیسری ہدایت یہ ہے کہ جب کھانے سے فارغ ہو جاؤں تو گپیں نہ لگاؤ کیونکہ دعوت کے بعد صاحب خانہ کو بھی کئی طرح کے کام ہوتے ہیں اسے وہ کام کرنے کا موقع دو۔
3۔
بہر حال معاشرے سے بے حیائی اور فحاشی کے خاتمے کے لیے پردہ نہایت ضروری چیز ہے۔
اب جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ اصل پردہ تو دل کا پردہ ہے کیونکہ شرم و حیا اور برے خیالات کا تعلق دل سے ہے یہ ظاہری پردہ کچھ ضروری نہیں وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4794
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1908
´ولیمہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی کا اتنا بڑا ولیمہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا بڑا آپ نے اپنی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ولیمہ میں ایک بکری ذبح کی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1908]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔
ان کی والدہ حضرت امیمہ بنت عبدالمطلب تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ سے کیا تھا لیکن نباہ نہ ہو سکا اور طلاق ہو گئی۔
عدت گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے وحی کے ذریعے سے کردیا۔
(2)
صحابی نے ولیمہ کے موقع پر ایک بکری ذبح کرنے کو پرتکلف اور شان دار ولیمہ قرار دیا ہے حالانکہ عرب گوشت کھانے کے عادی تھے۔
وہ بیک وقت کئی کئی اونٹ ذبح کر کے کھاتے اور کھلاتے تھے۔
اور اس ماحول میں ایک بکری بہت معمولی چیز تھی لیکن رسول اللہ ﷺ نے نکاح کو آسان بنانے کے لیے تکلفات سے پرہیز فرمایا اور عام طور پر ولیمہ گوشت کے بغیر ہی کردیا گیا۔
(3)
ولیمے کے لیے قرض لینا اور خواہ مخواہ زیر بار ہونا درست نہیں۔
آسانی سے جس قدر اہتمام ہو سکے کرلیا جائے۔
(4)
نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کے ہاں جمع ہو کر دعوتیں اڑانا کسی حدیث میں مذکور نہیں۔
یہ محض ایک رسم ہے جس کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1908
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3217
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ اپنی ایک بیوی کے کمرے کے دروازہ پر تشریف لائے جن کے ساتھ آپ کو رات گزارنی تھی، وہاں کچھ لوگوں کو موجود پایا تو آپ وہاں سے چلے گئے، اور اپنا کچھ کام کاج کیا اور کچھ دیر رکے رہے، پھر آپ دوبارہ لوٹ کر آئے تو لوگ وہاں سے جا چکے تھے، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر آپ اندر چلے گئے اور ہمارے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا (لٹکا دیا) میں نے اس بات کا ذکر ابوطلحہ سے کیا: تو انہوں نے کہا اگر بات ایسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو تو اس بارے میں کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہو گا، پھر آیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3217]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آیت حجاب سے مراد یہ آیت ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ﴾ إلى ﴿إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا﴾ (الأحزاب: 53) (یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو،
الاّ یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے،
لیکن تم پہلے ہی اس کے پکنے کا انتظار نہ کرو،
بلکہ جب بلایا جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھا چکو تو فوراً منتشر ہو جاؤ،
...اورجب تم امہات المومنین سے کوئی سامان مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو ...)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3217
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3218
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور اپنی بیوی (زینب بنت جحش رضی الله عنہا) کے پاس تشریف لے گئے، اس موقع پر میری ماں ام سلیم رضی الله عنہا نے حیس ۱؎ تیار کیا، اسے ایک چھوٹے برتن میں رکھا، پھر (مجھ سے) کہا: (بیٹے) انس! اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: اسے میری امی جان نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور انہوں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تھوڑا سا ہدیہ میری طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اللہ کے رسول! میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3218]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حیس ایک قسم کا کھانا ہے جو کھجور،
گھی اور ستو سے تیار کیا جاتا ہے۔
2؎:
اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظارکرتے رہو،
بلکہ جب بلایا جائے تب جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو،
وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو،
نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے (الأحزاب: 53)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3218
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3219
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کے ساتھ شادی والی رات گزاری، پھر آپ نے مجھے کچھ لوگوں کو کھانے پر بلانے کے لیے بھیجا۔ جب لوگ کھا پی کر چلے گئے، تو آپ اٹھے، عائشہ رضی الله عنہا کے گھر کا رخ کیا پھر آپ کی نظر دو بیٹھے ہوئے آدمیوں پر پڑی۔ تو آپ (فوراً) پلٹ پڑے (انہیں اس کا احساس ہو گیا) وہ دونوں اٹھے اور وہاں سے نکل گئے۔ اسی موقع پر اللہ عزوجل نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه» نازل فرمائی، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3219]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ قصہ پچھلی حدیث میں گزرا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3219
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3504
امام صاحب دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں کسی بیوی سے نکاح پر اس سے زیادہ یا بہتر و عمدہ ولیمہ نہیں کیا جیسا ولیمہ حضرت زینب سے نکاح پر کیا۔ حضرت ثابت بنانی نے پوچھا وہ ولیمہ کیا تھا؟ تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، انہیں اس قدر روٹیاں اور گوشت کھلایا حتی کہ لوگوں نے (سیر ہو کر) باقی کھانا چھوڑ دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3504]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
ہر نکاح پر یکساں دعوت ولیمہ کرنا ضروری نہیں ہے موقع محل اور حالات کے مطابق جو چاہے کھلا سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3504
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5154
5154. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے سیدہ زینب ؓ کا ولیمہ کیا تو مسلمانوں کو خوب سیر ہو کر کھانا کھلایا، پھر آپ باہر تشریف لے گئے جیسا کہ آپ نکاح کے موقع پر کرتے تھے اور امہات المومنین کے گھروں میں تشریف لائے، آپ ان کے لیے دعا فرماتے اور آپ کے لیے دعا کرتیں۔ پھر آپ واپس آئے تو وہاں دو آدمی دیکھے تو لوٹ گئے۔ (سیدنا انس ؓ کہتے ہیں:) مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ کو بتایا کسی اور نے آپ کے جانے کی خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5154]
حدیث حاشیہ:
صحبت کے بعد دولہا کو ولیمہ کی دعوت کرنا سنت ہے یہ ضروری نہیں کہ اس میں گوشت ہی ہو بلکہ جو میسر ہو وہ کھلائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ کی دعوت میں کھجور اور گھی اور پنیر کھلایا تھا۔
شادی سے پہلے کھلانا شریعت سے ثابت نہیں ہے، حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو اس لئے لائے کہ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زرد خوشبو لگائی تو معلوم ہوا کہ دولہا کو زرد خوشبو لگانا ضروری نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5154
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5466
5466. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نزول حجاب کے متعلق لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ سیدنا ابی بن لعب ؓ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ہوا یوں کہ سیدنا زینب بنت حجش ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کا موقع تھا آپ نے ان سے مدینہ طیبہ میں نکاح کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔ رسول اللہ ﷺ وہیں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ بھی بیٹھے تھے اس وقت دوسرے لوگ کھانے سے فارغ ہو کر جا چکے تھے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ اٹھنے اور چلنے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل رہا تھا۔ جب آپ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے پر پہنچے تو خیال آیا کہ شاید لوگ چلے گئے ہوں گے آپ وہیں سے واپس آئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا تو دیکھا کہ لوگ اب بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، چنانچہ آپ پھر واپس ہوئے اور میں بھی آپ کے ہمراہ دوبارہ واپس آ گیا۔ جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5466]
حدیث حاشیہ:
سورۃ احزاب کا بیشتر حصہ ایسے ہی آداب سے متعلق نازل ہوا ہے جن کا ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو یہاں اس غرض سے لائے ہیں کہ اس میں نقل کردہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے کھانے کا ادب بیان فرمایا کہ جب کھانے سے فارغ ہوں تو اٹھ چلا جانا چاہیئے، وہیں جمے رہنا اور صاحب خانہ کو ایذا دینا گناہ ہے۔
(فتح الباری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5466
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6238
6238. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ان کی عمر دس برس تھی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں آپ کی دس سال تک خدمت کی۔ میں پردے کے حکم کے متعلق تمام لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں کہ کب نازل ہوا تھا۔ حضرت ابی کعب ؓ مجھ سے اس کے متعلق پوچھا کرتے تھے۔ آیت حجاب کا نزول سب سے پہلے اس وقت ہوا جب رسول اللہ ﷺ نے سیدہ زینب بنت حجش ؓ کے ساتھ خلوت کی تھی۔ نبی ﷺ نے ان کے دولھا کی حیثیت سے صبح کی تھی اور آپ نے صحابہ کرام ؓ کو دعوت ولیمہ پر بلایا تھا چنانچہ انہوں نے کھانا کھایا اور واپس چلے گئے لیکن چند رسول اللہ ﷺ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے اور میں بھی آپ کے ہمراہ باہر نکلا تاکہ وہ لوگ بھی چلے جائیں! آپ چلتے رہے اور میں بھی آپ کے ہمراہ تھا یہاں تک کہ آپ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے کی چوکھٹ تک پہنچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6238]
حدیث حاشیہ:
ایسے موقع پر صاحب خانہ کی ضرورت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6238
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6239
6239. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے سیدہ زینب ؓ سے نکاح فرمایا تو لوگ دعوت ولیمہ کے لیے آئے کھانا کھایا پھر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ آپ ﷺ نے اس طرح اظہار کیا گویا آپ اٹھنے لگے ہیں لیکن لوگ نہ اٹھے۔ جب آپ نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ کھڑے ہوگئے۔ جب آپ اٹھے تو کچھ لوگ کھڑے ہو کر چلے گئے لیکن بعض لوگ پھر بھی بیٹھے رہے۔ بہرحال نبی ﷺ گھر میں داخل ہونے کے لیے تشریف لائے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں پھر وہ بھی اٹھ کر چلے گئے۔ میں نے نبی ﷺ کو اس امر کی اطلاع دی تو آپ اندر داخل ہو گئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا اور اللہ تعالٰی نے یہ حکم نازل فرمایا: ”اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو کرو۔۔۔۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6239]
حدیث حاشیہ:
بعض نسخوں میں یہاں یہ عبارت اور زائد ہے۔
قال أبو عبد اللہ فیه من الفقه أنه لم یستأذنهم حین قام و خرج و فیه أنه تھیا للقیام وھو یرید أن یقوموا۔
حضرت امام بخاری نے کہا اس حدیث سے یہ مسئلہ نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے ان سے اجازت نہیں لی اور یہ بھی نکلا کہ آپ نے ان کے سامنے اٹھنے کی تیاری کی۔
آپ کا مطلب یہ تھا کہ وہ بھی اٹھ جائیں تو معلوم ہوا کہ جب لوگ بیکار بیٹھے رہیں اور صاحب خانہ تنگ ہو جائے تو ان کی بغیر اجازت اٹھ کر چلے جانا یا ان کو اٹھانے کے لئے اٹھنے کی تیاری کرنا درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6239
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6271
6271. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے سیدہ زینب بنت حجش ؓ سے شادی کی تو لوگوں کو دعوت ولیمہ کے لیے بلایا۔ انہوں نے کھانا کھایا پھر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے انہیں اٹھانے کے لیے ایسا کیا گویا خود اٹھنا چاہتے ہیں لیکن لوگ پھر بھی کھڑے نہ ہوئے۔ جب آپ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو خود کھڑے ہوگئے جب آپ کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ اور بھی بہت سے صحابہ کھڑے ہو گئے لیکن تین آدمی اب بھی باقی رہ گئے۔ اس کے بعد نبی ﷺ آئے تاکہ گھر میں داخل ہوں لیکن وہ لوگ اب بھی بیٹھے ہوئے تھے اس کے بعد وہ لوگ بھی چلے گئے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں آیا اور نبی ﷺ کو ان کے جانے کی خبر دی تو آپ تشریف لائے اور اندر داخل ہوگئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا۔ تب اللہ تعالٰی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6271]
حدیث حاشیہ:
اور ان کی خانگی ضروریات کے پیش نظر آداب کا تقا ضا یہی ہے دعوت سے فراغت کے بعد فوراً وہاں سے رخصت ہو جائیں حدیث مذکو رہ میں ایسی ہی تفصیلات مذکور ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6271
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5166
5166. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میری عمر دس برس تھی، میری مائیں مجھے نبی ﷺ کی خدمت کرنے کا ہمیشہ حکم دیتی تھیں۔ میں نے دس سال آپ ﷺ کی خدمت کی۔ نبی ﷺ نے وفات پائی اس وقت میری عمر بیس برس تھی۔ جب پردے کے احکام نازل ہوئے تو میں انہیں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں کہ کب نازل ہوئے۔ سب سے پہلے پردے کا حکم اس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ ﷺ سیدنا زینب بنت حجش ؓ کو نکاح کے بعد اپنے گھر لائے اور نبی ﷺ ان کے دلھا بنے تھے۔ آپ نے لوگوں کی دعوت کی انہیں بلایا۔ لوگوں نے کھانا کھایا اور چلے گئے لیکن کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں دیر تک بیٹھے رہے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے ہمراہ باہر چلا گیا تاکہ یہ لوگ بھی چلے جائیں۔ نبی ﷺ چلتے رہے اور میں بھی آپ کے ساتھ رہا حتیٰ کہ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5166]
حدیث حاشیہ:
نووی نے کہا کہ ولیمہ کی دعوت آٹھ ہیں۔
ختنہ کی دعوت، سلامتی کے ساتھ زچگی پر دعوت کرنا، مسافر کی خیریت سے واپسی پر دعوت کرنا، مکان کی تیاری یا سکونت پر، غمی پر کھانا کھلانا، دعوت احباب جو بلا سبب ہو، بچے کے ہوشیار ہونے پر، تسمیہ خوانی کی دعوت، عشیرہ ماہ رجب کی دعوت، یہ جملہ دعوات وہ ہیں جن میں شرکت ضروری نہیں ہے نہ ان کا کرنا ضروری ہے۔
ایسی دعوت صرف ولیمہ کی دعوت ہے جو کرنی بھی ضروری اور اس میں شرکت بھی ضروری ہے۔
ولیمہ کی دعوت انسان کو حسب توفیق کرنا چاہئے۔
شہرت اور ناموری کے لئے پانچ چھ روز تک کھلانا بھی ٹھیک نہیں ہے یا بعض زیادہ کھانا پکواتے ہیں اور دعوت کم لوگوں کی کرتے ہیں جس کی وجہ سے کھانا خراب ہو جاتا ہے یا کھانا کم پکاتے ہیں اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مدعو کرتے ہیں محض دکھاوے کے لئے تو ایسا کرنا بھی درست نہیں بلکہ حسب حال کرنا بہتر ہے غمی پر کھانا کرنا بطور رسم نہ ہو ورنہ الٹا گناہ ہو جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5166
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5154
5154. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے سیدہ زینب ؓ کا ولیمہ کیا تو مسلمانوں کو خوب سیر ہو کر کھانا کھلایا، پھر آپ باہر تشریف لے گئے جیسا کہ آپ نکاح کے موقع پر کرتے تھے اور امہات المومنین کے گھروں میں تشریف لائے، آپ ان کے لیے دعا فرماتے اور آپ کے لیے دعا کرتیں۔ پھر آپ واپس آئے تو وہاں دو آدمی دیکھے تو لوٹ گئے۔ (سیدنا انس ؓ کہتے ہیں:) مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ کو بتایا کسی اور نے آپ کے جانے کی خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5154]
حدیث حاشیہ:
یہ عنوان پہلے باب کا تمتہ اور تکملہ ہے۔
پہلے میں دلہے کے لیے زرد رنگ کے استعمال کا جواز ثابت کیا تھا لیکن اس عنوان کا مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ دلہے کے لیے اس قسم کے رنگ کا استعمال ضروری نہیں کیونکہ حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر زرد رنگ کے استعمال کا کوئی ذکر روایات میں نہیں ہوا۔
معلوم ہوا کہ دلہے کے لیے جائز تو ہے لیکن ضروری نہیں۔
(فتح الباري: 276/9)
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5154
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5166
5166. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میری عمر دس برس تھی، میری مائیں مجھے نبی ﷺ کی خدمت کرنے کا ہمیشہ حکم دیتی تھیں۔ میں نے دس سال آپ ﷺ کی خدمت کی۔ نبی ﷺ نے وفات پائی اس وقت میری عمر بیس برس تھی۔ جب پردے کے احکام نازل ہوئے تو میں انہیں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں کہ کب نازل ہوئے۔ سب سے پہلے پردے کا حکم اس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ ﷺ سیدنا زینب بنت حجش ؓ کو نکاح کے بعد اپنے گھر لائے اور نبی ﷺ ان کے دلھا بنے تھے۔ آپ نے لوگوں کی دعوت کی انہیں بلایا۔ لوگوں نے کھانا کھایا اور چلے گئے لیکن کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں دیر تک بیٹھے رہے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے ہمراہ باہر چلا گیا تاکہ یہ لوگ بھی چلے جائیں۔ نبی ﷺ چلتے رہے اور میں بھی آپ کے ساتھ رہا حتیٰ کہ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5166]
حدیث حاشیہ:
(1)
ولیمہ مشروع اور ثابت ہے۔
اس میں کھانے کے متعلق کمی بیشی کی کوئی قید نہیں بلکہ حسب ضرورت اور حسب توفیق ولیمے کا کھانا تیار کیا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے میں کھجور اور ستو کا اہتمام کیا تھا۔
(جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1095)
لیکن ولیمے کا کھانا تناول کرنا ضروری نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”اگر چاہے تو کھائے اگر چاہے تو چھوڑ دے۔
“ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3518 (1430) (2)
دعوت ولیمہ میں غیر شرعی کام ہو رہے ہوں تو اس میں شرکت سے بچنا چاہیے۔
والله أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5166
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5466
5466. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نزول حجاب کے متعلق لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ سیدنا ابی بن لعب ؓ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ہوا یوں کہ سیدنا زینب بنت حجش ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کا موقع تھا آپ نے ان سے مدینہ طیبہ میں نکاح کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔ رسول اللہ ﷺ وہیں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ بھی بیٹھے تھے اس وقت دوسرے لوگ کھانے سے فارغ ہو کر جا چکے تھے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ اٹھنے اور چلنے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل رہا تھا۔ جب آپ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے پر پہنچے تو خیال آیا کہ شاید لوگ چلے گئے ہوں گے آپ وہیں سے واپس آئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا تو دیکھا کہ لوگ اب بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، چنانچہ آپ پھر واپس ہوئے اور میں بھی آپ کے ہمراہ دوبارہ واپس آ گیا۔ جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5466]
حدیث حاشیہ:
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کھانے کے آداب میں سے ایک ادب بیان کیا ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد اٹھ کر چلے جانا چاہیے، وہاں باتوں میں مصروف رہنا، اہل خانہ کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔
اگر وہ خود روکنا چاہیں تو اور بات ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5466
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6239
6239. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے سیدہ زینب ؓ سے نکاح فرمایا تو لوگ دعوت ولیمہ کے لیے آئے کھانا کھایا پھر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ آپ ﷺ نے اس طرح اظہار کیا گویا آپ اٹھنے لگے ہیں لیکن لوگ نہ اٹھے۔ جب آپ نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ کھڑے ہوگئے۔ جب آپ اٹھے تو کچھ لوگ کھڑے ہو کر چلے گئے لیکن بعض لوگ پھر بھی بیٹھے رہے۔ بہرحال نبی ﷺ گھر میں داخل ہونے کے لیے تشریف لائے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں پھر وہ بھی اٹھ کر چلے گئے۔ میں نے نبی ﷺ کو اس امر کی اطلاع دی تو آپ اندر داخل ہو گئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا اور اللہ تعالٰی نے یہ حکم نازل فرمایا: ”اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو کرو۔۔۔۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6239]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں آیت حجاب کا سبب نزول بیان ہوا ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا کہ تمہارا اصل مقام گھر کی چار دیواری ہے۔
تمہیں بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
یہ حکم ان کے باہر نکلنے پر پابندی تک موقوف تھا لیکن لوگ سب گھروں میں بلا روک ٹوک آتے جاتے تھے۔
اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلا اجازت داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی، پھر سورۂ نور کی آیت: 27 کی رو سے یہ حکم تمام مسلم گھرانوں پر نافذ کر دیا گیا کہ کوئی شخص بھی کسی دوسرے کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرے۔
(2)
بہرحال ان آیات کے نازل ہونے کے بعد تمام ازواج مطہرات کے گھروں کے باہر پردہ لٹکا دیا گیا، پھر دوسرے مسلمانوں نے بھی اپنے گھروں کے سامنے پردے لٹکا لیے حتی کہ یہ دستور اسلامی طرز معاشرت کا ایک حصہ بن گیا۔
(3)
مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول اور فحاشی کی روک تھام کے لیے یہ ایک مؤثر اقدام ہے کہ کوئی غیر مرد کسی اجنبی عورت کو نہ دیکھے اور نہ کسی کے دل میں کوئی برا خیال یا وسوسہ ہی پیدا ہو، گویا معاشرے سے بے حیائی اور فحاشی کے خاتمے کے لیے پردہ نہایت ضروری چیز ہے۔
اب جو لوگ کہتے ہیں کہ اصل پردہ تو دل کا پردہ ہے کیونکہ شرم و حیا اور برے خیالات کا تعلق دل سے ہے، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔
(4)
حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ کا ایک قول نقل ہوا ہے جو صحیح بخاری کے تمام نسخوں میں نہیں ہے، اس کی یہاں کوئی خاص ضرورت نہیں کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں خود ایک باب ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب من قام من مجلسه أو بيته ولم يستأذن أصحابه، أو تهيا للقيام ليقوم الناس)
”جو شخص اپنے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر مجلس یا گھر سے اٹھ کر چلا جائے یا کھڑا ہونے کی تیاری کر لے تاکہ دوسرے لوگ بھی اٹھ کر چلے جائیں۔
“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس قول کے متعلق اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
(فتح الباري: 29/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6239
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6271
6271. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے سیدہ زینب بنت حجش ؓ سے شادی کی تو لوگوں کو دعوت ولیمہ کے لیے بلایا۔ انہوں نے کھانا کھایا پھر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے انہیں اٹھانے کے لیے ایسا کیا گویا خود اٹھنا چاہتے ہیں لیکن لوگ پھر بھی کھڑے نہ ہوئے۔ جب آپ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو خود کھڑے ہوگئے جب آپ کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ اور بھی بہت سے صحابہ کھڑے ہو گئے لیکن تین آدمی اب بھی باقی رہ گئے۔ اس کے بعد نبی ﷺ آئے تاکہ گھر میں داخل ہوں لیکن وہ لوگ اب بھی بیٹھے ہوئے تھے اس کے بعد وہ لوگ بھی چلے گئے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں آیا اور نبی ﷺ کو ان کے جانے کی خبر دی تو آپ تشریف لائے اور اندر داخل ہوگئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا۔ تب اللہ تعالٰی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6271]
حدیث حاشیہ:
(1)
خانگی ضروریات کے پیش نظر آداب کا تقاضا یہی ہے کہ دعوت سے فارغ ہونے کے بعد فوراً وہاں سے رخصت ہو جانا چاہیے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ مجلس سے اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو اسے اجازت لینی چاہیے لیکن اگر کوئی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر اہل مجلس سے اجازت نہیں لیتا اور چلا جاتا ہے یا جانے کی تیاری کرتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے الادب امفرد میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
"جب کوئی آدمی کسی کے پاس جاتا ہے تو اٹھنے والے کو اجازت لینی چاہیے۔
پھر ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا تو انھوں نے اسے فرمایا:
تو اس وقت آیا ہے جب ہم مجلس ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اس نے کہا:
جیسے آپ کی مرضی ہو، چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اجازت لینے کے بعد کھڑے ہوئے اور جانے کی تیاری کرنے لگے۔
(الأدب المفرد، ص: 428، حدیث: 1173)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6271