صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ: {فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً} :
باب: آیت کی تفسیر ”سو ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ ان میں سے وقت آنے کا انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے عہد میں ذرا فرق نہیں آنے دیا“۔
حدیث نمبر: 4783
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نُرَى هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي أَنَسِ بْنِ النَّضْرِ: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 23".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارے خیال میں یہ آیت انس بن نضر کے بارے میں نازل ہوئی تھی «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه» کہ ”اہل ایمان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس میں وہ سچے اترے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4783 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4783
حدیث حاشیہ:
جو کہا تھا وہ کر کے دکھا دیا کہ میدان جہاد میں بصد شوق درجہ شہادت حاصل کیا۔
حضرت انس بن نضر اور کتنے ہی مجاہدین اسی شان والے گزرے ہیں۔
(رضي اللہ عنهم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4783
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4783
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کہا اسے کرکے دکھایا کہ میدان جہاد میں بصد شوق اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا جیساکہ درج ذیل روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:
میرے چچا حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔
انھوں نے کہا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں پہلی لڑائی میں غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی تھی۔
اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضر ہونے کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں پھر جب غزوہ اُحد کا موقع آیا اور مسلمان بھاگ نکلے تو حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
اے اللہ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ مشرکین نے کیا میں اس سے بے زار ہوں، پھر وہ آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے، ان سے حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
اسے سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر کے رب کی قسم! میں جنت کی خوشبو اُحد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جو انھوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب ہم نے حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاش کیا تو تلواروں، نیزوں اور تیروں کے تقریباً اسی نشانات ان کے جسم پر تھے۔
جب وہ شہید ہوئے تو مشرکین نے ان کے اعضاء کاٹ دیے تھے۔
کوئی شخص بھی انہیں پہنچان نہیں سکتا تھا۔
صرف ان کی بہن نے انھیں انگلیوں کے پوروں سے پہچانا۔
2۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:
ہمارے خیال کے مطابق درج ذیل آیت کریمہ ان کے اور ان جیسے اہل ایمان کے متعلق نازل ہوئی تھی۔
”اہل ایمان میں سے کچھ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے اس عہد کو پوراکردکھایا جو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیاتھا۔
۔
۔
“ (الأحزاب: 23 و صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2895، و صحیح مسلم، الإمارة، حدیث 4918(1903)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میرا نام میرے چچا زید بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔
(جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث: 3200)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4783