صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ} :
باب: آیت کی تفسیر ”کسی مومن کو علم نہیں جو جو سامان (جنت میں) ان کے لیے پوشیدہ کر کے رکھے گئے ہیں جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے“۔
حدیث نمبر: 4780
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:" أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ذُخْرًا بَلْهَ مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ"، ثُمَّ قَرَأَ:فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَرَأَ أَبُو هُرَيْرَةَ قُرَّاتِ أَعْيُنٍ.
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، کہا ہم سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیکوکار بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہ دیکھا اور کسی کان نے نہ سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی گمان و خیال پیدا ہوا۔ اللہ کی ان نعمتوں سے واقفیت اور آگاہی تو الگ رہی (ان کا کسی کو گمان و خیال بھی پیدا نہیں ہوا)۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون» کہ ”سو کسی نفس مومن کو معلوم نہیں جو جو سامان آنکھوں کی ٹھنڈک کا (جنت میں) ان کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے، یہ بدلہ ہے ان کے نیک عملوں کا جو دنیا میں کرتے رہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4780 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4780
حدیث حاشیہ:
1۔
جنت کی وہ نعمتیں جن کا ذکر قرآن وحدیث میں آیا ہے، ان کا ذکر نہ کرو، وہ جو اس کے ہاں ذخیرہ ہیں وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی تعمیر کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے، آپ نے فرمایا:
”جنت کی تعمیر میں ایک اینٹ سونے کی، ایک اینٹ چاندی کی اور اس کا گارا تیز خوشبو والی کستوری کا ہے۔
اس کی چپس ہیرے، جواہرات اور یاقوت ہیں۔
اس کی مٹی زعفران ہے۔
جو اس میں دخل ہوگا وہ خوشحال رہے گا۔
وہ کبھی بدحال نہیں ہوگا۔
وہاں ہمیشہ رہے گا، فوت نہیں ہوگا۔
اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے نہ اس کی جوانی ختم ہوگی۔
“(مسند أحمد: 305/2)
2۔
جنت کا ایک پہلو مندرجہ ذیل بھی ہے اسے بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا توحضرت جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا:
جاؤ اسے دیکھو، چنانچہ وہ گئے اور انھوں نے اس، اس کے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تیار کر رکھا تھا، اسے دیکھا، پھر واپس آئے تو عرض کی:
رب جی! تیری عزت کی قسم! اس کے متعلق جو بھی سنے گا وہ اس میں داخل ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے گرد ناگوار چیزوں کی باڑ لگا دی، پھر فرمایا:
جبرئیل! اب جا کر اسے دیکھو۔
وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر آئے اور عرض کی:
رب جی! تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی ایک بھی داخل نہیں ہوگا۔
“(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4744)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4780