صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
5. بَابُ: {فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا} هَلَكَةً:
باب: آیت کی تفسیر ”پس عنقریب یہ (جھٹلانا ان کے لیے) باعث وبال دوزخ بن کر رہے گا“ «لزاما» یعنی ہلاکت۔
حدیث نمبر: 4767
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" خَمْسٌ قَدْ مَضَيْنَ الدُّخَانُ، وَالْقَمَرُ، وَالرُّومُ، وَالْبَطْشَةُ، وَاللِّزَامُ، فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا (قیامت کی) پانچ نشانیاں گزر چکی ہیں۔ دھواں (اس کا ذکر آیت «يوم تأتي السماء بدخان مبين» میں ہے)۔ چاند کا پھٹنا (اس کا ذکر آیت «اقتربت الساعة وانشق القمر» میں ہے)۔ روم کا مغلوب ہونا (اس کا ذکر سورۃ «غلبت الروم» میں ہے)۔ «لبطشة» یعنی اللہ کی پکڑ جو بدر میں ہوئی (اس کا ذکر «یوم نبطش البطشة الکبرى» میں ہے)۔ اور وبال جو قریش پر بدر کے دن آیا (اس کا ذکر آیت «فسوف یکون لزاما» میں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4767 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4767
حدیث حاشیہ:
یہ پانچویں نشانیاں علامت قیامت سے متعلق ہیں۔
دھواں تو وہی ہے جس کا ذکر ﴿ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ﴾ میں آیا ہے۔
چاند کا پھٹنا وہی ہے جس کا ذکر سورۃ ﴿اقتربتِ الساعةُ وانشقَ القَمرُ﴾ میں ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول سے صاف نکلتا ہے کہ چاند کا پھٹنا قیامت کی نشانی تھا لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس کی خبر دے دی تھی اس لحاظ سے معجزہ بھی ہوا۔
شاہ ولی اللہ صاحب مرحوم نے تفہیمات میں ایسا ہی لکھا ہے۔
تیسرے رومیوں کا جن کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا ایرانیوں کے ہاتھوں مغلوب ہونا۔
بطشۃ یعنی پکڑا کا ذکر آیت ﴿یَومَ نَبطِشُ البطشةَ الکُبریٰ﴾ میں ہے آیت ﴿فسوفَ یَکُونُ لِزَاما﴾ میں لازم ہونا، اس سے اس ہلاکت کا ضرور ہونا مراد ہے۔
جو بدر کے دن کافروں کی ہوئی۔
بطشۃ سے بھی یہی قتل کفار مراد ہے جو بدر کے دن ہوا۔
بعضوں نے کہا لزاما سے قیامت کا دن مراد ہے۔
بعضوں نے کہا قحط مراد ہے جو قریش مکہ پر بطور عذاب آیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4767
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4767
حدیث حاشیہ:
1۔
دھواں سے مراد سورہ خان کی یہ آیت ہے:
”جب آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔
“ انشقاق قمر سے مراد یہ ہے:
”قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
“ (القمر: 1)
روم کا ذکر سورہ روم میں ہے:
﴿غُلِبَتْ الرُّوم﴾ یعنی ”اہل روم مغلوب ہوگئے۔
“ (الروم: 1،2) (بَطشَة)
کا ذکر دخان میں ہے:
”جس دن ہم بڑی سخت پکڑ کریں گے۔
“ (الدخان: 16)
(لِزَام)
سے مراد یہ آیت ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ یہ پانچوں علامات قیامت گزر چکی ہیں۔
وہ کہتے تھے کہ دھویں سے مراد وہ دھواں ہے جو قریش مکہ کو شدت بھوک کی وجہ سے آسمان پر نظر آتا تھا۔
شق القمر کا معجزہ بھی ہجرت سے پہلے رونما ہوچکا ہے۔
﴿غُلِبَتْ الرُّوم﴾ کا ظہور بھی ہوچکا ہے۔
اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے اور (بَطشَة)
سے مراد وہ سخت پکڑ ہے جو بدر کے دن کفارقریش کے قتل کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی، اور لزام سے مراد غزوہ بدر میں کفار کا قید و گرفتار ہونا ہے، جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک (بَطشَة)
سے مراد کفار کو جہنم میں پکڑ کر ڈالنا ہے اور کفار مکہ نے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی تھی اس لیے انھیں اس کی سزا لازمی بطور پر بھگتنا ہوگی، چنانچہ دنیا میں غزوہ بدر کے موقع پر شکست کی صورت میں ملی اورآخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی انھیں دوچار ہونا پڑے گا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4767