صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
12. بَابُ: {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ} :
باب: آیت «وليضربن بخمرهن على جيوبهن» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4759
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَتْ، تَقُولُ: لَمَّانَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ سورة النور آية 31 أَخَذْنَ أُزْرَهُنَّ، فَشَقَّقْنَهَا مِنْ قِبَلِ الْحَوَاشِي فَاخْتَمَرْنَ بِهَا".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے حسن بن مسلم نے، ان سے صفیہ بنت شیبہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «وليضربن بخمرهن على جيوبهن» کہ ”اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں“ تو (انصار کی عورتوں نے) اپنے تہبندوں کو دونوں کنارے سے پھاڑ کر ان کی اوڑھنیاں بنا لیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4759 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4759
حدیث حاشیہ:
عرب کی عورتیں کرتا پہنتیں تھیں جس کا گریباں سامنے سے کھلا رہتا اس سے سینہ اور چھاتیوں پر نظر پڑتی، اس لئے ان کو اوڑھنی سے گریباں ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سینے اور گریبان کا ڈھانکنا بھی عورت کے لئے ضروری ہے۔
اس مقصد کے لئے دو پٹہ استعمال کرنا، اس پر برقعہ اوڑھنا اگر میسر ہو تو بہتر ہے، برقعہ نہ ہو تو بہر حال دو پٹے یا اوڑھنی سے عورت کو سارا جسم چھپانا پردہ کے واجبات سے ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4759
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4759
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس قریش کی عورتوں اور ان کی فضیلت کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:
بلا شبہ قریش کی عورتیں فاضلہ ہیں لیکن اللہ کی قسم! قرآن پاک کی تصدیق اور اس پر ایمان لانے میں انصار کی عورتوں سے بڑھ کر میں نے کوئی نہیں دیکھا جب سورہ نور کی آیت نازل ہوئی:
”اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں۔
“ تو ان کے مردوں نے اپنے گھروں میں یہ آیت پڑھ کر سنائی تو انھوں نے فوراً اس پر عمل کیا۔
اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹےبنائے اور صبح کی نماز دوپٹے اوڑھ کر ادا کی گویا ان کے سروں پر کوے بیٹھے تھے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ انصار کی عورتوں نے اس آیت پر عمل کرنے میں بہت جلدی کی۔
(فتح الباري: 822/8)
2۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد دوپٹا اسلامی تہذیب کا ایک حصہ بن گیا۔
جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اسےاوڑھ کر سر، کمر، سینہ سب اچھی طرح ڈھانپ لیے جائیں چنانچہ انصار کی خواتین نے حکم سنتے ہی سمجھ لیا تھا کہ اس کا منشا کس طرح کے کپڑے کا دوپٹا بنانے سے پورا ہو سکتا ہے لیکن آج اس نئی روشنی اور روشن خیالی کے دور میں پرانے دور جاہلیت سے بھی زیادہ جاہلیت کا مظاہرہ کیا جا تا ہے۔
آج کی اس مہذب سوسائٹی میں اول تو عورتیں دوپٹا لینا ہی گوارا نہیں کرتیں اور اگر لے لیں تو دوپٹے کو گلے میں ڈال کر اس کے کنارے پیچھے پشت پر ڈال دیتی ہیں۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4759