صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
10. بَابُ: {وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور اللہ تم سے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے اور اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے“۔
حدیث نمبر: 4756
حدثنا محمد بن بشار، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ:" دَخَلَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَى عَائِشَةَ، فَشَبَّبَ، وَقَالَ: حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ، قَالَتْ: لَسْتَ كَذَاكَ، قُلْتُ: تَدَعِينَ مِثْلَ هَذَا يَدْخُلُ عَلَيْكِ، وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ سورة النور آية 11، فَقَالَتْ: وَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَى، وَقَالَتْ: وَقَدْ كَانَ يَرُدُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا، کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں، ان کے متعلق کسی کو شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ آپ غافل اور پاک دامن عورتوں کا گوشت کھانے سے کامل پرہیز کرتی ہیں۔“ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ لیکن اے حسان! تو ایسا نہیں ہے۔ بعد میں، میں نے عرض کیا آپ ایسے شخص کو اپنے پاس آنے دیتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو یہ آیت بھی نازل کر چکا ہے «والذي تولى كبره منهم» کہ ”اور جس نے ان میں سے سب سے بڑا حصہ لیا۔“ الخ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نابینا ہو جانے سے بڑھ کر اور کیا عذاب ہو گا، پھر انہوں نے کہا کہ حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے (کیا یہ شرف ان کے لیے کم ہے)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4756 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4756
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ حسان رضی اللہ عنہ نے اگر ایک غلطی کی تو دوسرا ہنر بھی کیا۔
اس ہنر کے مقابل ان کا عیب در گزر کرنے کے لائق ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے حسان سے فرمایا ”روح القدس تیری مدد پر ہے جب تک تو اللہ ورسول کی طرف سے کافروں کا رد کرے۔
“ کافر آنحضرت کی اسلام اور مسلمانوں کی شعر میں بھی ہجو کیا کرتے تھے ان کے جواب کے لئے اللہ نے حضرت حسان کو کھڑا کر دیا وہ کافروں کی ایسی ہجو کرتے کہ ان کے دلوں پر چوٹ لگتی۔
حضرت عائشہ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ ایک طرف اگر حسان سے یہ غلطی ہو گئی کہ وہ تہمت تراشنے والوں کے ساتھ ہو گئے تو دوسری طرف یہ ہنر بھی اللہ نے ان کو دیا کہ وہ کفار کی نظم و نثر ہر طرح سے ہجو کرتے تھے۔
اس عظیم ہنر کے ہوتے ہوئے ان کا ایک عیب در گزر کرنے کے قابل ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان سے فرمایا کہ روح القدس تیری مدد پر ہے جب تک تو اللہ ورسول کی حمایت اور کافروں کی مذمت جوابی طور پر کرتا رہے گا۔
معلوم ہوا کہ دشمنان اسلام کا تحریری و تقریری نظم و نثر میں جواب دینا بہت بڑی نیکی ہے۔
آج کل کتنے غیر مسلم فرقے اسلام میں بے ہودہ اعتراض کرتے رہتے ہیں۔
خود مسلمانوں میں بھی ایسے نام نہاد بہت ہیں جو فرائض و سنن اسلامی پر زبان درازی کرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں کا رد کرنا، ان کے رد میں کتابیں لکھنا، قرآن وحدیث کو عامۃ المسلمین کے مفاد کے لئے شائع کرنا بہت بڑی عبادت بلکہ افضل ترین عبادت ہے۔
خاص طور پر بخاری شریف جیسی اہم کتاب کے مطالعہ میں رہنا گویا اللہ و رسول اور صحابہ و تابعین و محدثین کرام رحمہم اللہ کی مجالس برپا کرنا اور اس سے اجر عظیم حاصل کرنا ہے۔
معلوم ہوا کہ کافروں کا مقابلہ کرنا، ان کی تحریروں اور تقریروں کا جواب دینا بہت بڑی نیکی ہے۔
الحمد للہ یہ ”بخاری شریف مترجم اردو“ بھی خالص لوجہ اللہ دین اسلام کی خدمت کے طور پر شائع کی جا رہی ہے جو لوگ اس خدمت کے ہمدرد و معاون ہیں وہ یقینا اللہ کے ہاں سے اجر عظیم کے مستحق ہیں۔
آج جبکہ عوام مسلمان قرآن وحدیث کے مطالعہ سے دن بدن غفلت برت رہے ہیں بلکہ نامانوس ہوتے جارہے ہیں بخاری شریف کی یہ خدمت افضل ترین عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
اللہ پاک ہمارے ہمدردان کرام ومعاونین عظام کو بہترین جزائیں عطا کرے اور دین ودنیا میں ان سب کو برکتوں سے نوازے جو اس خدمت میں دامے درمے سخنے میرے شریک ہیں۔
جزاھم اللہ أحسن الجزاء في الدارین۔
آمین ایک عجیب حکایت! حضرت عبد اللہ بن مبارک ایک بلند پایہ عالم اور اہل اللہ بزرگ گزرے ہیں آپ نماز باجماعت ادا کرتے ہی فوراً گوشہ خلوت میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔
ایک دن کسی نے کہا کہ آپ نماز کے بعد فوراً کہاں چلے جایا کرتے ہیں۔
آپ نے بر جستہ فرمایا کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام کی پاکیزہ مجالس میں پہنچ جاتا ہوں۔
وہ شخص تعجب سے بولا کہ آج وہ پاکیزہ مجالس کہاں ہیں۔
آپ نے جواب دیا کہ وہ مجالس دفاتر کتب احادیث کی شکلوں میں موجود ہیں۔
جن کے مطالعہ سے صحابہ کرام اور تابعین عظام ومحدثین کی مجالس کا لطف حاصل ہو جاتا ہے اور عوام کی مجالس میں جو غیبت وغیرہ کا بازار گرم ہوتا ہے ان سے بھی دور رہنے کا موقع مل جاتا ہے۔
فی الواقع کتب احادیث کا لکھنا پڑھنا دربار رسالت ومجالس صحابہ وتابعین وائمہ محدثین میں حاضری دینا ہے۔
میرا تجربہ ہے کہ خلوت میں جب بھی بخاری شریف لکھنے پڑھنے بیٹھ جاتا ہوں دل کو سکون حاصل ہوتا ہے اور مجالس محدثین کا لطف مل جاتا ہے۔
اللھم تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم آج 17رجب 1393ھ کو یہ نوٹ جامع اہلحدیث کھنڈیا راجستھان میں بروز جمعہ حوالہ قلم کر رہا ہوں اور جماعت کی ترقی کے لئے دست بدعا ہوں۔
اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیه و سلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4756
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4756
حدیث حاشیہ:
1۔
"اے حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تم ایسے نہیں ہوحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ کلمہ اس لیے فرمایا تاکہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ توبہ و استغفارمیں مزید کوشش کریں اور آئندہ ایسا کام کرنے سے بچیں۔
2۔
حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اگرچہ ایک غلطی سر زد ہو گئی تھی لیکن ان میں ایک ہنر بھی ہے جو ان کے عیب کے مقابلے میں کہیں وزنی ہے وہ کفار کی نظم و نثرمیں ہجو کرتے تھے۔
اس عظیم ہنر کے ہوتے ہوئے ان کا ایک عیب درگزر کرنے کے قابل ہے۔
3۔
حضرت عروہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس بات کو ناپسند کرتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہا جائے اور فرماتی تھیں کہ وہ حسان ہی تھے جو یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
میرا باپ دادا اور میری عزت و آبرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و آبرو کے لیے ڈھال ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4141)
ایک روایت میں ہے کہ عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا تو آپ نے فرمایا:
”انھیں برا بھلا نہ کہووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے تھے۔
“ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4145)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4756
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6391
امام مسروق رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے پاس حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں اپنا شعر سنارہے تھے،اپنے شعروں کےآغاز میں انہوں نے شعر کہا،پاکدامن،عقلمند اورمتین ہیں،ان پر کسی عیب کی الزام تراشی نہیں کی جاسکتی،وہ غافل عورتوں کی گوشت خوری سے بھوکی رہتی ہیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں کہا،لیکن آپ تو ایسے نہیں ہیں،(غیبت کرتے ہیں) مسروق کہتے ہیں،میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا،آپ اسے اپنے پاس آنے کی اجازت کیوں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6391]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يشبب:
عورت کے محاسن اور کمالات سے اشعار کا آغاز کرنا۔
(2)
حصان:
عفیفہ اور پاکدامن ہیں،
نظربد سے محفوظ ہیں۔
(3)
ازان:
عقلمند اور باوقار ہیں۔
(4)
ماتزن:
الزام تراشی نہیں کی جا سکتی۔
(5)
ريبة:
بے حیائی،
بدکاری،
شک و شبہ۔
(6)
تصبح غرثي:
غرث،
بھوک،
پیٹ کا خالی ہونا،
یعنی وہ پاکدامن عورتوں کی غیبت نہیں کرتی۔
(7)
لكنك لست كذالك:
لیکن تو تو ایسا نہیں ہے تو نے تو میری غیبت کی ہے اور مجھ پر الزام تراشی میں حصہ لیا ہے اور دعویٰ یہ کرتے ہیں،
ان پر الزام تراشی نہیں ہو سکتی،
لیکن حضرت حسان رضی اللہ عنہ،
اس الزام تراشی سے انکار کرتے تھے کہ میں نے آپ پر بہتان نہیں باندھا،
لوگوں نے خواہ مخواہ مجھے اس میں ملوث کر دیا ہے اور اس کو شہرت دی ہے،
حضرت عائشہ کی مدح میں جو اشعار کہے تھے،
ان میں یہ بھی ہیں،
فان كنت قدقلت الذي زعمو الكم،
فلارفعت سوطي الي اناملي،
،
اگر وہ بات میں نے کہی ہے،
جو آپ کو بتائی گئی ہے تو میری ہاتھ کی انگلیاں،
مجھے میرا کوڑا نہ پکڑا سکیں۔
(8)
وكيف وودي ماجبيت ونصرتي،
لآل رسول الله زين المحافل:
میں یہ کیونکہ کہہ سکتا ہوں،
جبکہ میری موت اور میری نصرت تا حیات،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے لیے ہے،
جو مجالس کی زینت ہے۔
(9)
فان الذي قد قيل ليس بلائط،
ولكنه قول امري،
بي ماحل:
کیونکہ جو کچھ کہا گیا ہے،
وہ ان سے چپکنے والا یا ان پر چسپاں ہونے والا نہیں ہے،
لیکن وہ ایسے آدمی کا قوم ہے،
جو میری چغلی کھانے والا ہے۔
ان اشعار سے محسوس ہوتا ہے کہ حضرت حسان نے الزام تراشی میں حصہ نہیں لیا،
لیکن ان کو اس میں ملوث کیا گیا ہے۔
(10)
وقدقال الله والذي تولي كبره:
واقعہ افک کو ہوا دینے والا اور اسے گھڑنے والا،
عبداللہ بن ابی بن سلول منافق تھا اور حضرت مسروق کے خیال میں،
حضرت حسان نے اس کی تکذیب نہیں کی،
بلکہ تصدیق کی،
اس لیے وہ بھی اس آیت کا مصداق ٹھہرے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے:
۔
(المنافق عبدالله بن ابي وهوالذي كان يستوشيه يجمعه وهوالذي تولي كبرة) (بخاری شریف،
حدیث نمبر 4757)
"عبداللہ بن ابی منافق ہی اس کی کرید کرتا تھا اور اس کو جمع کرتا تھا اور اس نے ہی سب سے بڑھ کر حصہ لیا اور اس کا بڑا حصے دار ہے۔
"چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مشہور قول سے متاثر تھیں،
اس لیے انہوں نے حضرت حسان کی بینائی ختم ہونے کو،
اس واقعہ کی سزا قرار دیا،
لیکن علامہ ابن اثیر جذری کے اسد الغابہ ج2،
ص 76 پر لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آخر میں حضرت حسان کی بات تسلیم کر لی تھی اور ان کو تہمت لگانے سے بری قرار دیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6391
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4146
4146. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ان کے پاس حضرت حسان بن ثابت ؓ ان کی شان میں مدحیہ اشعار پڑھ رہے تھے، انہوں نے یہ شعر کہے: آپ پاک دامن باوقار ہیں، انہیں شک و شبہ سے متہم نہیں کیا جاتا۔ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر بھالی بھالی عورتوں کا گوشت نہیں کھاتی۔ یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے کہا: لیکن تم تو ایسے ثابت نہیں ہوئے۔ حضرت مسروق نے کہا: آپ انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت کیوں دیتیں ہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ”ان میں سے جو شخص بہتان کا سرغنہ بنا اسے عذاب عظیم ہو گا۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اس سے سخت عذب اور کیا ہو گا کہ وہ دنیا میں اندھا ہو گیا؟ اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ نے مسروق سے کہا: حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کی حمایت اور دفاع کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4146]
حدیث حاشیہ:
یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جیسا کہ معلوم ہے۔
حضرت عائشہ ؓ حسان ؓ کی شان میں کسی برے کلمہ کو گوارا نہیں کرتی تھیں۔
حسان ؓ سے تہمت کی غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن جن صحابہ ؓ نے بھی اس میں غلطی سے شرکت کی تھی وہ سب تائب ہو گئے تھے اور ان کی توبہ قبول ہو گئی تھی۔
اور بہر حال حضرت عائشہ ؓ کا دل غلطی سے شریک ہونے والے صحابہ ؓ کی طرف سے صاف ہو گیا تھا لیکن جب اس طرح کا ذکر آجا تا تو دل کارنجیدہ ہوجانا ایک قدرتی بات تھی۔
یہاں بھی حضرت عائشہ ؓ نے دو ایک چبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر میں حضرت حسان ؓ سے متعلق کہہ دیئے ہیں۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وَفِي تَرْجَمَةِ الزُّهْرِيِّ عَنْ حِلْيَةِ أَبِي نُعَيْمٍ من طَرِيق بن عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ كُنْتُ عِنْدَ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُم لَهُ عَذَاب عَظِيم فَقَالَ نَزَلَتْ فِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ أَصْلَحَ اللَّهُ الْأَمِيرَ لَيْسَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ وَكَيْفَ أَخْبَرَكَ قُلْتُ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ بن أبي۔
۔
۔
۔
۔
وَكَأَنَّ بَعْضَ مَنْ لَا خَيْرَ فِيهِ مِنَ النَّاصِبَةِ تَقَرَّبَ إِلَى بَنِي أُمَيَّةَ بِهَذِهِ الْكِذْبَةِ فَحَرَّفُوا قَوْلَ عَائِشَةَ إِلَى غَيْرِ وَجْهِهِ لِعِلْمِهِمْ بِانْحِرَافِهِمْ عَنْ عَلِيٍّ فَظَنُّوا صِحَّتَهَا حَتَّى بَيَّنَ الزُّهْرِيُّ لِلْوَلِيدِ أَنَّ الْحَقَّ خِلَافُ ذَلِكَ فَجَزَاهُ اللَّهُ تَعَالَى خَيْرًا وَقَدْ جَاءَ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ هِشَامَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ كَانَ يَعْتَقِدُ ذَلِكَ أَيْضًا فَأَخْرَجَ يَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ فِي مُسْنَدِهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلْوَانِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ قَالَ حَدثنَا عَمِّي قَالَ دَخَلَ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ عَلَى هِشَامِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَقَالَ لَهُ يَا سُلَيْمَانُ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مَنْ هُوَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ قَالَ كَذَبْتَ هُوَ عَلِيٌّ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ فَدخل الزُّهْرِيّ فَقَالَ يَا بن شهَاب من الَّذِي تولى كبره قَالَ بن أُبَيٍّ فَقَالَ أَنَا أكذب لَا أبالك وَاللَّهِ لَوْ نَادَى مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنَّ اللَّهَ أَحَلَّ الْكَذِبَ مَا كَذَبْتُ قال الکرمانی واعلم أن براءة عائشة قطعیة بنص القرآن ولو شك فیھا أحد صار کافرا انتھی وزاد في خیر الجاري وهو مذهب ٓ رحمه اللہ الشیعة الإمامیة مع بغضھم بھا انتھی۔
(فتح الباری) (خلاصہ یہ ہے کہ آیت ﴿والَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ﴾ سے مراد عبد اللہ بن ابی ہے حضرت علی ؓ مراد نہیں ہیں)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4146
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4146
4146. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ان کے پاس حضرت حسان بن ثابت ؓ ان کی شان میں مدحیہ اشعار پڑھ رہے تھے، انہوں نے یہ شعر کہے: آپ پاک دامن باوقار ہیں، انہیں شک و شبہ سے متہم نہیں کیا جاتا۔ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر بھالی بھالی عورتوں کا گوشت نہیں کھاتی۔ یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے کہا: لیکن تم تو ایسے ثابت نہیں ہوئے۔ حضرت مسروق نے کہا: آپ انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت کیوں دیتیں ہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ”ان میں سے جو شخص بہتان کا سرغنہ بنا اسے عذاب عظیم ہو گا۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اس سے سخت عذب اور کیا ہو گا کہ وہ دنیا میں اندھا ہو گیا؟ اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ نے مسروق سے کہا: حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کی حمایت اور دفاع کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4146]
حدیث حاشیہ:
1۔
مذکورہ آیت کریمہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے متعلق ہے جیسا کہ خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4749)
اس صورت میں حضرت عائشہ ؓ نے بطور فرض وتسلیم حسان بن ثابت ؓ کو اس آیت کا مصداق ٹھہرایا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ انھیں دنیا میں سزادے دی ہے شاید دوسری مرتبہ ان کو سزا نہ دی جائے۔
اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ حضرت حسان ؓ کی شان میں کسی بُرے کلمے کو گوارا نہیں کرتی تھی۔
ان سے تہمت لگانے میں غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن انھوں نے توبہ کرلی اور اس کی سزا قبول کرلی۔
حضرت عائشہ ؓ کا دل ان کی طرف سے صاف ہوگیا تھا لیکن جب کبھی اس طرح کا ذکر آجاتا تو دل کا رنجیدہ ہونا ایک قدرتی بات تھی، اس بنا پر روایت میں ایک دوچبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر کا نتیجہ ہیں۔
2۔
بہرحال حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک بطور تنصیص آیت کا مصداق عبداللہ بن ابی منافق ہے اور اس حدیث میں بطور فرض وتسلیم ہے تاکہ تنصیص کی خلاف ورزی نہ ہو۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4146