صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
8M. بَابُ: {وَلَوْلاَ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم نے جب اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کیسے ایسی بات منہ سے نکالیں (پاک ہے تو یا اللہ!) یہ تو سخت بہتان ہے“۔
حدیث نمبر: 4754
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى عَائِشَةَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ نِسْيًا مَنْسِيًّا.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے کی اجازت چاہی۔ پھر راوی نے مذکورہ بالا حدیث کی طرح بیان کیا لیکن اس حدیث میں راوی نے لفظ «نسيا منسيا.» کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4754 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4754
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد تھا کہ تعریف سے آدمی کے اندر پسندی اور تکبر کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور یہ ایسا وقت ہے کہ اس میں آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
اپنے نفس کی طرف توجہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے۔
اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت دینے میں انھیں کچھ تامل ہوا۔
ان کے جانے کے بعد آپ نے جو کچھ کہا اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خشیت الٰہی اور تقوی کے بلند مقام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
2۔
واقعی اولیاء اللہ اور بزرگ لوگ گمنامی ہی پسند کرتے ہیں انھوں نے شہرت و ناموری کو کبھی اپنے پاس نہیں آنے دیا۔
وہاں اگر اللہ تعالیٰ ان کی اچھی شہرت کر دے اور لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت ڈال دے۔
”تو“ رضائے الٰہی مولیٰ از ہمہ اولیٰ “ سمجھ کر خاموش رہتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4754