صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
7. بَابُ قَوْلِهِ: {وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو جس شغل (تہمت) میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب نازل ہوتا“۔
حدیث نمبر: 4751
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ أُمِّ رُومَانَ أُمِّ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" لَمَّا رُمِيَتْ عَائِشَةُ خَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سلیمان بن کثیر نے خبر دی، انہیں حصین بن عبدالرحمٰن نے، انہیں ابووائل نے، انہیں مسروق نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب عائشہ نے تہمت کی خبر سنی تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4751 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4751
حدیث حاشیہ:
خطیب نے اس روایت پر اعتراض کیا ہے کہ یہ سند منقطع ہے کیونکہ ام رومان رضی اللہ عنہا آنحضرت کی زندگی میں گزر گئی تھیں۔
مسروق کی عمر اس وقت چھ سال کی تھی اس کا جواب یہ ہے کہ قول علی بن زید زید بن حدیجان نے نقل کیا ہے وہ خود ضعیف ہے۔
صحیح یہ ہے کہ مسروق نے ام رومان سے سنا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں۔
ابراہیم حربی اور ابو نعیم حافظین حدیث نے ایسا ہی کہا ہے کہ ام رومان رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک مدت تک زندہ رہیں۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4751
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4751
حدیث حاشیہ:
1۔
اس کی تفصیل ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب حضرت اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو انصار کی عورت نے اس واقعے کی اطلاع دی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی وہاں موجود تھیں۔
انھوں نے پوچھا:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ باتیں سنی ہیں؟ اس نے بتایا کہ ہاں سنی ہیں انھوں نے پوچھا کیا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پتا چل گیا ہے؟ اس نے کہا:
ہاں یہ سنتے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غش کھا کر گر پڑیں اور جب انھیں ہوش آیا تو سردی کا بخار چڑھا ہوا تھا۔
حضرت اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ میں نے ان پر کپڑے ڈال کر ڈھانپ دیا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا انھیں کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! انھیں سردی کے ساتھ بخار چڑھ گیا ہے۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شاید اس نے اس طوفان بد تمیزی کو سن لیا ہے؟ حضرت ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا:
ہاں سن لیا ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4143)
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے طبرانی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے ارادہ کیا کہ کسی کنویں میں چھلانگ لگا کر خود کو ختم کرلوں۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 184/1 و فتح الباري: 592/8)
عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ آیت اور حدیث دونوں واقعہ افک سے متعلق ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4751