Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور لوگ تجھے نشہ میں دکھائی دیں گے حالانکہ وہ نشہ میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہے“۔
وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: الْمُخْبِتِينَ: الْمُطْمَئِنِّينَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِي إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ، فِي أُمْنِيَّتِهِ: إِذَا حَدَّثَ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي حَدِيثِهِ، فَيُبْطِلُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ، وَيُحْكِمُ آيَاتِهِ، وَيُقَالُ أُمْنِيَّتُهُ قِرَاءَتُهُ، إِلَّا أَمَانِيَّ: يَقْرَءُونَ، وَلَا يَكْتُبُونَ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَشِيدٌ بِالْقَصَّةِ جِصٌّ، وَقَالَ غَيْرُهُ: يَسْطُونَ: يَفْرُطُونَ مِنَ السَّطْوَةِ، وَيُقَالُ: يَسْطُونَ يَبْطِشُونَ، وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ: أُلْهِمُوا، وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ: إِلَى الْقُرْآنِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ الْإِسْلَامِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بِسَبَبٍ: بِحَبْلٍ إِلَى سَقْفِ الْبَيْتِ ثَانِيَ عِطْفِهِ مُسْتَكْبِرٌ، تَذْهَلُ: تُشْغَلُ"
‏‏‏‏ سفیان بن عیینہ نے کہا «المخبتين‏» کا معنی اللہ پر بھروسہ کرنے والے (یا، اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «في أمنيته‏» کی تفسیر میں کہا جب پیغمبر کلام کرتا ہے (اللہ کے حکم سناتا ہے) تو شیطان اس کی بات میں اپنی طرف سے (پیغمبر کی آواز بنا کر) کچھ ملا دیتا ہے۔ پھر اللہ پاک شیطان کا ملایا ہوا مٹا دیتا ہے اور اپنی سچی آیتوں کو قائم رکھتا ہے۔ بعضوں نے کہا «أمنيته‏» سے پیغمبر کی قرآت مراد ہے۔ «إلا أماني‏» جو سورۃ البقرہ میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مگر آرزوئیں۔ اور مجاہد نے کہا (طبری نے اس کو وصل کیا)۔ «مشيد» کے معنی چونہ گچ کئے گئے۔ اوروں نے کہا «يسطون‏» کا معنی یہ ہے زیادتی کرتے ہیں یہ لفظ «سطوة» سے نکلا ہے۔ بعضوں نے کہا «يسطون» کا معنی سخت پکڑتے ہیں۔ «وهدوا إلى الطيب من القول‏» یعنی اچھی بات کا ان کو الہام کیا گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «بسبب‏» کا معنی رسی جو چھت تک لگی ہو۔ «تذهل‏» کا معنی غافل ہو جائے۔
حدیث نمبر: 4741
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ:" يَا آدَمُ، يَقُولُ: لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ، فَيُنَادَى بِصَوْتٍ، إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُخْرِجَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ بَعْثًا إِلَى النَّارِ، قَالَ: يَا رَبِّ، وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ أُرَاهُ، قَالَ: تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، فَحِينَئِذٍ تَضَعُ الْحَامِلُ حَمْلَهَا، وَيَشِيبُ الْوَلِيدُ، وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ سورة الحج آية 2، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ حَتَّى تَغَيَّرَتْ وُجُوهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِنْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، وَمِنْكُمْ وَاحِدٌ، ثُمَّ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَبْيَضِ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَكَبَّرْنَا". قَالَ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ: وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى سورة الحج آية 2، وَقَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، وَقَالَ جَرِيرٌ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ،وَأَبُو مُعَاوِيَةَ 0 سَكْرَى وَمَا هُمْ بِسَكْرَى 0.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک قیامت کے دن آدم علیہ السلام سے فرمائے گا۔ اے آدم! وہ عرض کریں گے، میں حاضر ہوں اے رب! تیری فرمانبرداری کے لیے۔ پروردگار آواز سے پکارے گا (یا فرشتہ پروردگار کی طرف سے آواز دے گا) اللہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا جتھا نکالو۔ وہ عرض کریں گے اے پروردگار! دوزخ کا جتھا کتنا نکالوں۔ حکم ہو گا (راوی نے کہا میں سمجھتا ہوں) ہر ہزار آدمیوں میں نو سو ننانوے (گویا ہزار میں ایک جنتی ہو گا) یہ ایسا سخت وقت ہو گا کہ پیٹ والی کا حمل گر جائے گا اور بچہ (فکر کے مارے) بوڑھا ہو جائے گا (یعنی جو بچپن میں مرا ہو) اور تو قیامت کے دن لوگوں کو ایسا دیکھے گا جیسے وہ نشہ میں متوالے ہو رہے ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب ایسا سخت ہو گا (یہ حدیث جو صحابہ حاضر تھے ان پر سخت گزری۔ ان کے چہرے (مارے ڈر کے) بدل گئے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لیے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج (جو کافر ہیں) کی نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔ غرض تم لوگ حشر کے دن دوسرے لوگوں کی نسبت (جو دوزخی ہوں گے) ایسے ہو گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک بال کالا ہوتا ہے یا جیسے کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتے ہیں اور مجھ کو امید ہے تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہو گے (باقی تین حصوں میں اور سب امتیں ہوں گی)۔ یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی ہو گے ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا نہیں بلکہ آدھا حصہ ہو گے (آدھے حصہ میں اور امتیں ہوں گی) ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور ابواسامہ نے اعمش سے یوں روایت کیا «ترى الناس سكارى وما هم بسكارى‏» جیسے مشہور قرآت ہے اور کہا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے نکالو (تو ان کی روایت حفص بن غیاث کے موافق ہے) اور جریر بن عبدالحمید اور عیسیٰ بن یونس اور ابومعاویہ نے یوں نقل کیا «سكرى وما هم بسكرى‏» (حمزہ اور کسائی کی بھی یہی قرآت ہے)۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4741 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4741  
حدیث حاشیہ:
طبرانی کی روایت میں اور زیادہ ہے کہ تم دو تہائی ہوگے۔
ترمذی میں ہے کہ بہشتیوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی۔
ان میں اسی صفیں تمہاری ہوں گی تو دو ثلث مسلمان ہوئے ایک ثلث میں دوسری سب امتیں ہوں گی۔
مالک تیرا شکر ہم کہا ں تک ادا کریں تو نے دنیا کی نعمتیں سب ہم پر ختم کر دیں۔
مال دیا اولاد دی علم دیا شرافت دی۔
جمال دیا کرامت دی۔
اب ان نعمتوں پر کیا تو آخرت میں ہم کو ذلیل کرے گا نہیں ہم کو تیرے فضل وکرم سے یہی امید ہے کہ تو ہماری آخرت بھی درست کردے گا اور جیسے دنیا میں تونے باعزت وحرمت رکھا ویسے دوسرے بندوں کے سامنے آخرت میں بھی ہم کو ذلیل نہیں کرے گا۔
ہم کو تیرا ہی آسرا ہے اور تیرے ہی فضل وکرم کے بھر وسے پر ہم زندگی گزار رہے ہیں۔
یا اللہ دنیا میں ہم کو حاسدوں اور دشمنوں نے بہت تنگ کرنا چاہا۔
مگر تو نے حدیث شریف کی برکت سے ہم کو ان کے شر سے محفوظ رکھا اوران سب سے ہم کو دولت اور نعمت زیادہ عنایت کی۔
ایسے ہی مرتے وقت بھی ہم کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھیو اور ہم کو ایمان کے ساتھ دنیا سے اٹھائیو۔
آمین یا رب العالمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4741   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4741  
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سو میں سے ایک جنت کے لیے اور ننانوے جہنم کے لیے الگ کردیے جائیں۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6529)
ان مختلف روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہےکہ جب یاجوج وماجوج کو اس امت کے ساتھ ملایا جائے گا تو ہزار میں سے ایک جنتی اور باقی نوسونناوے جہنمی ہوں گے اور جب ان کے بغیر تقابل ہوگا تو سو میں سے ایک جنتی اور باقی جہنمی ہوں گے۔
اس کا قرینہ یہ ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں یاجوج وماجوج کا ذکر ہے اور اس میں سے ہزار میں سے ایک کے جنتی ہونے کا بیان ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں یاجوج وماجوج کا ذکر نہیں اور اس میں ایک فی صد کے جنتی ہونے کا ذکر ہے، نیز ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم جنت میں دو تہائی ہوں گے۔
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم ایک دوسری حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جنت میں اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی۔
اس میں اسی صفیں اس امت محمدیہ کی اور باقی چالیس صفیں دوسری امتوں کی ہوں گی۔
(مسند أحمد: 347/5)
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دوتہائی اہل جنت اس امت سے ہوں گے اور ایک تہائی دوسری امتوں سے لیے جائیں گے۔
(وفتح الباري: 474/11)

ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے چوتھائی حصے، پھر ایک تہائی، اس کے بعد نصف اورآخر میں دوتہائی کی اطلاع دی گئی ہو اوریہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مقدار مختلف اوقات اور مختلف مراحل کے اعتبار سے ہو:
ابتدائی مرحلے میں امت مسلمہ کی تعداد ایک چوتھائی حصے اہل جنت کے برابر ہو پھر ایک زمانے کے بعد اہل جنت کی تعداد میں اضافہ ہوجائے تو ان کی تعداد ایک تہائی کے برابر ہو جائے گی تیسرے مرحلےمیں ایک تہائی سے بڑھ کر نصف ہو جائے گی اورآخر میں نصف سے بڑھ کر دوتہائی تک پہنچ جائے۔
اس سے امت محمدیہ کی فضیلت اور برتری بیان کرنا مقصود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4741   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3348  
´صحابہ کرام کا مضبوط ایمان`
«...وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا...»
...اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم (امت مسلمہ) تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہو گے۔ پھر ہم نے اللہ اکبر کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہو گے... [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3348]
تخریج الحدیث:
یہ حدیث صحیح بخاری میں تین مقامات پر موجود ہے:
[3348، 4741، 6530]
اسے امام بخاری کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے:
مسلم [الصحيح: 222]
النسائي فى الكبريٰ [11339 والتفسير: 359]
ابوعوانه [المسند 88/1-90]
عبد بن حميد [المنتخب: 917]
ابن جرير الطبري [التفسير 17؍87، تهذيب الآثار 2؍52]
البيهقي [شعب الايمان: 361]
ابن منده [الايمان: 881]
امام بخاری سے پہلے درج ذيل محدثين نے اسے روايت كيا ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 3؍32]
وكيع [نسخة وكيع عن الاعمش ص85، 86 ح27]
سیدنا ابوسعید خدری رضى اللہ عنہ کے علاوہ اسے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ نے بھی بیان کیا ہے، دیکھئے: صحیح بخاری [6528، 6642] و صحيح مسلم [221]
↰ لہٰذا یہ روایت بالکل صحیح اور قطعی الثبوت ہے۔
اس میں خیال مشکوک والی کوئی بات نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درجہ بدرجہ اپنے صحابہ کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے پہلے ایک چوتھائی پھر ایک ثلث اور آخر میں نصف کا ذکر فرمایا۔ یہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ نصف میں ایک ثلث اور ایک چوتھائی دونوں شامل ہوتے ہیں، لہٰذا منکرین حدیث کا اس حدیث پر حملہ مردود ہے (کہ کیا وحی خیال مشکوک کا نام ہے)۔ منکرین حدیث کی خدمت میں عرض ہے کہ «سورة الصّٰفّٰت» کی آیت نمبر147 کی وہ کیا تشریح کرتے ہیں؟ دوسرے یہ کہ حدیث مذکور کس قرآنی آیت کے خلاف ہے؟
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 26   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6530  
´ قیامت کی ہلچل ایک بڑی مصیبت ہو گی `
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ اللَّهُ: " يَا آدَمُ "، فَيَقُولُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، قَالَ: يَقُولُ: " أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ "، قَالَ: وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: " مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ "، فَذَاكَ حِينَ يَشِيبُ الصَّغِيرُ، وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا، وَتَرَى النَّاسَ سَكْرَى وَمَا هُمْ بِسَكْرَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے آدم! آدم علیہ السلام کہیں گے حاضر ہوں فرماں بردار ہوں اور ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے انہیں نکال لو۔ آدم علیہ السلام پوچھیں گے جہنم میں ڈالے جانے والے لوگ کتنے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بچے غم سے بوڑھے ہو جائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا دیں گی اور تم لوگوں کو نشہ کی حالت میں دیکھو گے، حالانکہ وہ واقعی نشہ کی حالت میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہو گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/بَابُ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ : 6530]
تخريج الحديث:
[133۔ البخاري فى: 81 كتاب الرقاق: باب قوله عز وجل إن زلزلة الساعة شيئ عظيم 3348، مسلم 222]
لغوی توضیح:
«بَعْثَ النَّار» وہ لوگ جو جہنم میں بھیجے جائیں گے۔
«يَشِيْبُ الصَّغِيْرُ» بچے بوڑھے ہو جائیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے «فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبًا» [المزمل: 17] اگر تم کافر رہے تو اس دن کیسے پناہ پاؤ گے جو دن بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ بعد کے الفاظ میں جس آیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے «فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبًا» [المزمل: 17] جس دن تم اسے دیکھ لوگے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ نشہ کی حالت میں ہیں، حالانکہ وہ نشہ میں نہیں بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہے۔
«الرَّقْمَة» داغ، علامت یا گول نشان۔
فھم الحدیث: اس حدیث میں امت محمدیہ کی عظیم فضیلت کا بیان ہے کہ آدھے جنتی اسی امت سے ہوں گے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ بلاشبہ وہ لوگ باعمل ہوں گے، نافرمان و بدکردار نہیں، اس لیے عمل میں کوتاہی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 133   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 532  
حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزو جل فرمائے گا: اے آدم! وہ عرض کریں گے: میں تیری اطاعت کی سعادت کے حصول کے لیے بار بار حاضر ہوں! ہر قسم کی خیر تیرے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ فرمائے گا: آگ کی جماعت نکالیے! آدم ؑ عرض کریں گے: دوزخیوں کی جماعت سے کیا مراد ہے؟ (ان کی تعداد کتنی ہے) اللہ فرمائے گا: ہر ہزار سے نو سو ننانوے۔ یہ وہ وقت ہو گا، جب بچے (خوف سے) بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ کا حمل وضع ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:532]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
الرَّقْمَةُ:
گدھے کے بازوؤں کا اندرونی دائرہ یا نشان۔
فوائد ومسائل:
(1)
اگر آدم ؑ کے ساتھ دوزخیوں کو الگ کرنے کی گفتگو دنیا کے فنا سے پہلے ہو،
تو پھر بچے کا بوڑھا ہونا اور حاملہ کا وضع حمل،
حقیقی معنی میں ہو گا۔
اور اگر یہ گفتگو قیام قیامت کے بعد حشر کے وقت ہو گی،
تو پھر اس کا مجازی معنی ہو گا،
کہ قیامت کی دہشت اور ہولناکی اس قدر شدید ہوگی،
کہ اس وقت اگر کوئی عورت حاملہ ہوئی،
تو اس کا حمل گرجائے گا اور بچا ہوا تو بوڑھا ہوجائے گا،
عربوں کا محاورہ ہے "أَصَابَنَا أَمْرٌ یَشِیْبُ مِنْهُ الْوَلِیْدُ" ہم اس قدر شدید مصیبت سے دور چار ہوئے ہیں،
کہ جو بچے کو بھی بوڑھا کر دیتی ہے یعنی انتہائی شدید ہے۔
(2)
حضرت ابو سعید ؓ کی حدیث میں یا جوج ماجوج کا تذکرہ ہے،
اس میں جنت میں داخل ہونے کی تعداد ہزار میں سے ایک ہے،
لیکن حضرت ابوہریرہ ؓ کی صحیح بخاری میں حدیث ہے ہر سو میں سے ایک جنتی ہے یعنی ہزا ر میں سے دس ہیں۔
دونوں حدیثوں میں تطبیق کی مختلف تو جیہیں بیان کی گئی ہیں:
(1)
پہلے آپ ﷺنے ایک ہزار میں سے ایک فرمایا تھا،
بعد میں سو میں سے ایک فرمایا،
جیسے جنت میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد پہلے چوتھائی،
پھر تہائی،
پھر نصف اور بعد میں دو تہائی بتائی۔
(2)
تعداد مقصود نہیں،
بلکہ یہ بتانا ہے،
کہ کافروں کے مقابلہ میں جنت میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد کم ہوگی۔
(3)
ابوہریرہ ؓکی حدیث میں یاجوج ماجوج کے سوا تعداد مراد ہے،
کہ وہ سو میں سے ایک،
اگر یاجوج موجوج کو شمار کیا جائے،
تو پھر ہزار میں سے ایک ہے۔
(4)
تمام امتوں کے لحاظ سے ہزار میں ایک اور اس کی امت کے افراد میں سے ایک ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 532   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3348  
3348. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا۔ اے آدم ؑ!وہ عرض کریں گے۔ میں حاضر ہوں اور اس حاضری میں میری سعادت ہے۔ ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ ارشاد ہو گا: دوزخ کا لشکر کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ہر ہزار میں سے نوسو ننانوے۔ اس وقت مارے خوف کے بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔ اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرادے گی اور تم لوگوں کو بے ہوش ہوتے دیکھو گے۔ حالانکہ وہ بےہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہو گا۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! وہ ایک آدمی ہم میں سے کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا: تم خوش ہو جاؤ کیونکہ وہ ایک شخص تم میں سے ہوگااور ایک ہزار یا جوج و ماجوج کے ہوں گے۔ پھر آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اہل جنت میں ایک چوتھائی تم ہوگے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3348]
(1)
ان کا تعلق آدم کی اولاد سے ہے۔
، آدم کے علاوہ وہ کسی اور سے پیدا شدہ نہیں ہیں۔
(2)
وہ اس قدر کثرت سے ہیں کہ ملت اسلامیہ ان کافروں کا ہزارواں حصہ ہو گی۔
(3)
دنگا فساد ان کی سرشت ہے۔
ذوالقرنین نے ان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے ان دروں کولوہے سے بند کردیا تھا جن کے ذریعے سے وہ دوسروں پر حملہ آور ہوتے تھے۔
(4)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اس سد سکندری کو دیکھا تھا جو منقش چادر کی طرح تھی۔
(5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ دیوار کچھ کمزور ہو چکی تھی کہ اس میں معمولی سا سوراخ ہوگیا تھا۔
(6)
قیامت کے نزدیک وہ دیوار پیوند زمین ہو جائے گی اور یاجوج و ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے۔
(7)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی۔
جب تک نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔
ان میں ایک یاجوج و ماجوج کا حملہ آور ہونا ہے۔
ان کی یورش کے بعد جلد ہی قیامت بپا ہو جائے گی۔
جو روایات ان قدو قامت کے متعلق منقول ہیں وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن)
فرمائے گا، اے آدم! آدم ؑ عرض کریں گے میں اطاعت کے لیے حاضر ہوں، مستعد ہوں، ساری بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جہنم میں جانے والوں کو (لوگوں میں سے الگ)
نکال لو۔
حضرت آدم ؑ عرض کریں گے۔
اے اللہ! جہنمیوں کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔
اس وقت (کی ہولناکی اور وحشت سے)
بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور ہرحاملہ عورت اپنا حمل گرادے گی۔
اس وقت تم (خوف و دہشت سے)
لوگوں کو مدہوشی کے عالم میں دیکھو گے، حالانکہ وہ بے ہوش نہ ہوں گے۔
لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہوگا۔
صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ ایک شخص ہم میں سے کون ہوگا؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو، وہ ایک آدمی تم میں سے ہوگا اور ایک ہزار دوزخی یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے۔
پھر حضور ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم (امت مسلمہ)
تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہوگے۔
پھر ہم نے اللہ أکبر کہا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہوگے پھر ہم نے اللہ أکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا کہ (محشرمیں)
تم لوگ تمام انسانوں کے مقابلے میں اتنے ہوگے جتنے کسی سفید بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال، یا جتنے کسی سیاہ بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس فقرے سے نکلتا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی کے مقابل یا جوج ما جوج میں سے ہزار آدمی پڑتے ہیں۔
کیو ں کہ اس سے یاجوج ماجوج کی ایسی کثرت نسل معلوم ہوتی ہے کہ امت اسلامیہ ان کافروں کا ہزاروں حصہ ہوگی۔
یاجوج ماجوج دو قبیلوں کے نام ہیں۔
جو یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں۔
قیامت کے قریب یہ لوگ بہت غالب ہوں گے اور ہر طرف سے نکل پڑیں گے۔
ان کا نکلنا قیامت کی ایک نشانی ہے جو لوگ یاجوج ماجوج کے وجود میں شبہ کرتے ہیں وہ خود احمق ہیں۔
حدیث سے امت محمدیہ کا بکثرت جنتی ہونا بھی ثابت ہوا مگر جو لوگ کلمہ اسلام پڑھنے کے باوجود قبروں، تعزیوں، جھنڈوں کی پوجا پاٹ میں مشغول ہیں وہ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے۔
اس لئے کہ وہ مشرک ہیں اور مشرکوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کو قطعاً حرام کردیا ہے۔
جیسا کہ آیت شریفہ ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ﴾ (النساء: 48)
سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3348   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7483  
7483. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نےفرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سیدنا آدم ؑ سے فرمائے گا: اے آدم! وہ کہیں گے: لیبك سعدیك پھر وہ بلند آواز سے ندا دے گا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنی اولاد سے جہنم کا لشکر نکال کر باہر کر دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7483]
حدیث حاشیہ:
یہاں سے اللہ کے کلام میں آوا ز ثابت ہوئی اور ان نادانوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ آواز ہے نہ حروف ہیں۔
معاذاللہ اللہ کے لفظوں کو کہتے ہیں یہ اللہ کے کلام نہیں ہیں کیونکہ الفاظ اور حروف اور اصوات سب حادث ہیں۔
امام احمد نے فرمایا کہ کم بخت لفظیہ جہمیہ سے بدتر ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7483   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3348  
3348. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا۔ اے آدم ؑ!وہ عرض کریں گے۔ میں حاضر ہوں اور اس حاضری میں میری سعادت ہے۔ ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ ارشاد ہو گا: دوزخ کا لشکر کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ہر ہزار میں سے نوسو ننانوے۔ اس وقت مارے خوف کے بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔ اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرادے گی اور تم لوگوں کو بے ہوش ہوتے دیکھو گے۔ حالانکہ وہ بےہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہو گا۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! وہ ایک آدمی ہم میں سے کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا: تم خوش ہو جاؤ کیونکہ وہ ایک شخص تم میں سے ہوگااور ایک ہزار یا جوج و ماجوج کے ہوں گے۔ پھر آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اہل جنت میں ایک چوتھائی تم ہوگے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3348]
حدیث حاشیہ:

معلوم ہوتاہے کہ یاجوج وماجوج اس کثرت سے ہوں گے کہ امت محمدیہ ان کے مقابلے میں ہزارواں حصہ ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی کثرت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
﴿حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ ﴾ حتی کہ جب یاجوج وماجوج کو کھول دیا جائےگا تو وہ ہر بلندی سے نیچے دوڑتے آئیں گے۔
(الانبیاء: 96/21)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سد ذوالقرنین ٹوٹے گا تو یاجوج وماجوج اس طرح حملہ آور ہوں گے جیسے کوئی شکاری جانور اپنے پنجرے سے آزاد ہوکر شکار پر جھپٹتا ہے۔
یہ لوگ اپنی کثرت کی وجہ سے ہربلندی وپستی پر چھا جائیں گے۔
جدھر دیکھو انھی کا ہجوم نظر آئے گا۔
ان کا بے پناہ سیلاب ایسی شدت اور تیز رفتاری سے آئے گا کہ کوئی انسانی طاقت اسے روک نہ سکے گی۔
یوں معلوم ہوگا کہ ان کی فوجیں پہاڑوں اور ٹیلوں سے پھیلتی لڑھکتی چلی آرہی ہیں۔
ممکن ہے کہ یہ دونوں قومیں آپس ہی میں بھڑ جائیں۔
پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کا موجب بن جائے۔
یاجوج وماجوج کے حملے کے بعد جلدی قیامت آجائے گی اور قیامت سے پہلے نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائےگا جیسا کہ احادیث میں ہے کہ قیامت گندے اور بدترین لوگوں پر قائم ہوگی۔
(صحیح مسلم، الأمارة، حدیث: 4957(1924)
بہرحال یاجوج وماجوج کی اقوام تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ افراد پر مشتمل ہوں گی، البتہ ان کے متعلق جو بے سروپا حکایات مشہور ہیں واعظین کو انھیں بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت آدم ؑ سے فرمائے گا:
اے آدم ؑ! اپنی اولاد میں سے جہنم کا لشکر الگ کردو۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4741)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج حضرت آدم ؑ کی اولاد سے ہوں گے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3348   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6530  
6530. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی فرمائے گا: اے آدم ؑ عرض کریں گے: میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں، ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ آگ کا لشکر الگ کر دو۔ حضرت آدم ؑ عرض کریں گے: جہنم کا لشکر کس قدر ہے؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا: ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہی وہ وقت ہوگا جب بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حمل والی عورت اپنا حمل گرا دے گی اور تم لوگوں کو نشے کی حالت میں دیکھو گے، حالانکہ وہ نشے کی حالت میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہوگا۔ صحابہ کرام کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! تمہیں بشارت ہو ایک ہزار یاجوج ماجوج سے ہوں گے اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہوگا۔ پھر آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6530]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے پہلی حدیث میں اہل جنت کی نسبت اہل جہنم کے مقابلے میں ایک فیصد تھی جبکہ اس حدیث میں ایک ہزار میں سے ایک بیان ہوئی ہے، اس تعارض کے محدثین نے کئی ایک جواب دیے ہیں:
٭ ایک عدد دوسرے عدد کے منافی نہیں بلکہ مقصد اہل ایمان کی قلت اور اہل کفر کی کثرت بیان کرنا ہے۔
٭ تمام اولاد آدم کی نسبت ہزار میں سے ایک اور یاجوج ماجوج کے علاوہ نسبت سو میں سے ایک ہو گی۔
٭ تمام مخلوق کے اعتبار سے ہزار میں سے ایک اور اس امت کے لحاظ سے سو میں سے ایک ہو گا۔
٭ کفار کے اعتبار سے بہ نسبت ہزار میں سے ایک اور گناہ گاروں کے لحاظ سے ایک فی صد ہو گی۔
(فتح الباري: 474/11) (2)
بہرحال قیامت کے اس ہولناک منظر کو دیکھ کر بچے، بوڑھے ہو جائیں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اب اگر تم نے انکار کر دیا تو اس دن کی سختی سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گی جس کی سختی سے آسمان پھٹ جائے گا اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔
(المزمل: 73//17، 18)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6530   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7483  
7483. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نےفرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سیدنا آدم ؑ سے فرمائے گا: اے آدم! وہ کہیں گے: لیبك سعدیك پھر وہ بلند آواز سے ندا دے گا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنی اولاد سے جہنم کا لشکر نکال کر باہر کر دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7483]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں آواز اور حروف ہیں اور اسے سنا جا سکتا ہے اور ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام صرف نفسی کلام ہے جس میں حروف وآواز نہیں کیونکہ جس کلام میں آواز اورحروف ہوتے ہیں وہ حادث ہے اور اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت بھی حادث نہیں۔
ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو مخلوق کے کلام کے مثل قراردیا، پھر قیاس کا سہارا لیتے ہوئے اس کی تاویلیں کی ہیں، حالانکہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ باآواز بلند حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دے گا کہ تم اپنی اولاد سے جہنم کا لشکر الگ کر دو۔

جامع ترمذی کی ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل دو آیات باآواز بلند تلاوت فرمائیں:
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی (ہولناک)
چیز ہے۔
اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پیلانے والی اس سے غافل ہو جائے گی جسے اس نے دودھ پلایا اور ہر حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو مدہوش دیکھے گا، حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہوگا۔
(الحج 1۔
2)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمھیں معلوم ہے کہ ایسا کب ہوگا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی:
اللہ اور اسکے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ اس دن ہوگا جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو باآواز بلند فرمائے گا:
اے آدم علیہ السلام! اپنی اولاد سے دوزخ کا حصہ الگ کر دو۔
حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے! اے میرے رب! دوزخ کا حصہ کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
ایک ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم کے لیے اور ایک شخص جنت کے لیے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3169)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ باآواز بلند حضرت آدم علیہ السلام کو جہنم کا حصہ الگ کرنے کا حکم دے گا۔
اور یہ حکم آواز وحروف پر مشتمل ہوگا۔
وھو المقصود۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7483