صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ قَوْلِهِ: {أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا} قَالَ مَوْثِقًا:
باب: آیت کی تفسیر ”کیا وہ غیب پر آگاہ ہوتا ہے یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی عہد نامہ حاصل کر لیا ہے“۔
حدیث نمبر: 4733
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ:" كُنْتُ قَيْنًا بِمَكَّةَ، فَعَمِلْتُ لِلْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ السَّهْمِيِّ سَيْفًا، فَجِئْتُ أَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ: لَا أُعْطِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، قُلْتُ: لَا أَكْفُرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُمِيتَكَ اللَّهُ، ثُمَّ يُحْيِيَكَ، قَالَ: إِذَا أَمَاتَنِي اللَّهُ، ثُمَّ بَعَثَنِي وَلِي مَالٌ وَوَلَدٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا {77} أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا {78} سورة مريم آية 77-78"، قَالَ: مَوْثِقًا، لَمْ يَقُلْ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ سَيْفًا، وَلَا مَوْثِقًا.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے، انہیں مسروق نے اور ان سے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مکہ میں لوہار تھا اور عاص بن وائل سہمی کے لیے میں نے ایک تلوار بنائی تھی۔ میری مزدوری باقی تھی اس لیے ایک دن میں اس کو مانگنے آیا تو کہنے لگا کہ اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر نہیں جاؤ گے۔ میں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز نہیں پھروں گا یہاں تک کہ اللہ تجھے مار دے اور پھر زندہ کر دے اور وہ کہنے لگا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے مار کر دوبارہ زندہ کر دے گا تو میرے پاس اس وقت بھی مال و اولاد ہو گی۔ اور اسی وقت تم اپنی مزدوری مجھ سے لے لینا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا * أطلع الغيب أم اتخذ عند الرحمن عهدا» کہ ”بھلا تو نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تو مال و اولاد مل کر ہی رہیں گے تو کیا یہ غیب پر مطلع ہو گیا ہے یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی وعدہ لے لیا ہے۔“ «عهد» کا معنی مضبوط اقرار۔ عبیداللہ اشجعی نے بھی اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کیا ہے لیکن اس میں تلوار بنانے کا ذکر نہیں ہے نہ عہد کی تفسیر مذکور ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4733 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4733
حدیث حاشیہ:
1۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ عاص بن وائل جو دعوی کر رہا ہے کہ اس کے پاس مال و دولت ہو گی کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہاں بھی اس کے ہاں روپے پیسے کی ریل پیل ہو گی؟ یا اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی عہد و پیمان ہو چکا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ صرف غرور کا اظہار اور آیات الٰہی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے یہ جس مال واولاد کی بات کررہا ہے اس کے وارث تو ہم ہیں۔
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عاص بن وائل پچاسی سال کی عمر پا کر مکہ میں واصل جہنم ہوا یہ اپنے گدھے پر سوار ہو کر طائف جا رہا تھا کہ گدھے نے اسے کانٹوں پر گرا دیا۔
اس کے پاؤں میں کانٹے چبھے تو پاؤں میں ورم آگیا جو اس کی موت کا باعث بنا۔
(فتح الباري: 546/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4733
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3162
´سورۃ مریم سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے خباب بن ارت رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں عاص بن وائل سہمی (کافر) کے پاس اس سے اپنا ایک حق لینے کے لیے گیا، اس نے کہا: جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت) کا انکار نہیں کر دیتے میں تمہیں دے نہیں سکتا۔ میں نے کہا: نہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا انکار نہیں کر سکتا۔ چاہے تم یہ کہتے کہتے مر جاؤ۔ پھر زندہ ہو پھر یہی کہو۔ اس نے پوچھا کیا: میں مروں گا؟ پھر زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا؟ میں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: وہاں بھی میرے پاس مال ہو گا، اولاد ہو گی، اس وقت میں تمہارا حق ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3162]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا میں مال واولاد سے بھی نوازا جاؤں گا۔
(مریم: 77)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3162
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7062
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میرا عاص بن وائل کے ذمہ قرض تھا، اس کے پاس اس کا مطالبہ کرنے کے لیے گیا تو اس نے مجھے کہا، میں اس وقت تک ہر گز تیرا قرض ادا نہیں کروں گا، جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کروتو میں نے اسے کہا، میں ہر گز محمد کا انکار نہیں کروں گا، حتی کہ تو مرجائے اور پھر دوبارہ اٹھایا جائے، اس نے کہا، کیا مجھے موت کے بعد اٹھایاجائے گا؟تو اس وقت تیرا قرض چکا دوں گا، جب میں مال اور اولاد کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7062]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے عاص بن وائل کو جواب دیا،
میں اس وقت تک محمد کا انکار ہر گز نہیں کروں گا،
جب تک تو دوبارہزندہ نہ ہو اور ظاہر ہے دوبارہ زندگی قیامت کو ملے گی اور قیامت کے بعدایمان اور کفر کا موقعہ اور محل ختم ہوچکاہوگا اور ان کے نتائج اور انجام کا ظہور ہوگا،
اس لیے یہ اعتراض پیدا نہیں ہوتا کہ حضرت خباب نے کفر کو دوبارہ اٹھنے پر معلق کیا ہے اور عاص نے مذاق واستہزا کرتے ہوئے کہا،
(کیونکہ دوبارہ اٹھنے پر ایمان نہیں رکھتا)
مجھے اسی وقت مال اور اولاد ملے گا تو میں تیرا قرض ادا کر دوں گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7062
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4732
4732. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں عاص بن وائل سہمی کے پاس اپنا حق لینے کے لیے گیا جو اس کے ذمے تھا تو اس نے کہا: جب تک تم محمد ﷺ سے کفر نہیں کرو گے میں تجھے تیرا حق نہیں دوں گا۔ میں نے کہا: تو مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے تب بھی یہ نہیں ہو سکتا۔ اس نے کہا: کیا مرنے کے بعد مجھے دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟ میں نے کہا: ہاں ضرور۔ اس نے کہا: میرے لیے وہاں مال و اولاد ہو گی اور میں تمہارا حق بھی وہیں ادا کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو ہماری آیت کا انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے مال و اولاد مل کر رہے گا۔“ اس حدیث کو سفیان ثوری، شعبہ، حفص، ابو معاویہ اور وکیع نے بھی حضرت اعمش سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4732]
حدیث حاشیہ:
خباب لوہاری کا کام کیا کرتے تھے اور عاص بن وائل کافر نے ان سے ایک تلوار بنوائی تھی اس کی مزدوری باقی تھی وہی مانگنے گئے تھے۔
عمرو بن عاص مشہور صحابی اس کافر کے لڑکے ہیں۔
یہ واقعہ مکہ کا ہے۔
ایسے کفار نا ہنجار آج بھی بکثرت موجود ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4732
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4735
4735. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں پہلے لوہار تھا اور عاص بن وائل کے ذمے میرا کچھ قرض تھا۔ میں اس کا تقاضا کرنے کے لیے اس کے پاس گیا تو وہ کہنے لگا: جب تک تم محمد ﷺ سے کفر نہیں کرتے تو تمہارا قرض ادا نہیں کروں گا۔ میں نے کہا: میں تو کسی صورت میں ان کا انکار نہیں کروں گا تا آنکہ اللہ تعالٰی تجھے مار دے، پھر زندہ کر دے۔ اس نے کہا: کیا میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا؟ پھر تو مجھے وہاں مال و اولاد بھی ملے گا، اس وقت میں تمہارا قرض بھی ادا کروں گا۔ تب یہ آیات نازل ہوئی: (أَفَرَءَيْتَ ٱلَّذِى كَفَرَ بِـَٔايَـٰتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا ﴿٧٧﴾ أَطَّلَعَ ٱلْغَيْبَ أَمِ ٱتَّخَذَ عِندَ ٱلرَّحْمَـٰنِ عَهْدًا ﴿٧٨﴾ كَلَّا ۚ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُۥ مِنَ ٱلْعَذَابِ مَدًّا ﴿٧٩﴾ وَنَرِثُهُۥ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا ﴿٨٠﴾ ) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4735]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ آیت:
اے پیغمبر بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے ہماری آیتوں کو نہ مانا اور لگا کہنے اگر قیامت ہوگی تو وہاں بھی مجھ کو مال ملے گا اور اولاد ملے گی کیا اس کو غیب کی خبر لگ گئی ہے یا اس نے اللہ پاک سے کوئی مضبوط قول قرار لے لیاہے؟ ہرگز نہیں جو باتیں یہ بکتا ہے ہم ان کو لکھ لیں گے اور اس کا عذاب بڑھاتے جائیں گے اور دنیا کا مال اسباب اولاد یہ سب کچھ یہاں ہی چھوڑ جائے گا۔
ہم ہی اس کے وارث ہوں گے اور قیامت کے دن ہمارے سامنے اکیلا ایک بینی دو گوش لے کر حاضر کیا جائے گا۔
عاص بن وائل کافر نے ٹھٹھے کی راہ سے خباب بن ارت سے یہ گفتگو کی تھی چنانچہ اسی عاص بن وائل کے پیرو کار بعض ملحد اس زمانے میں موجود ہیں کہتے ہیں ایک ملحد کسی کا بکرا چرا کر کاٹ کر کھا گیا اور ایک شخص نے اس کو نصیحت کی کہ قیامت کے دن یہ بکرا تجھے دینا پڑے گا وہ کہنے لگا میں مکر جاؤں گا اس نے کہا مکر ے گا کیسے وہ بکرا خود گواہی دے گا۔
ملحد نے کہا پھر جھگڑا ہی کیا رہے گا میں کان پکڑ کر اسے اس کے مالک کے حوالے کردوں گا کہ لے اپنا بکرا پکڑ اور میرا پیچھا چھوڑ۔
یہ ایک ملحد کی مثال ہے ورنہ کتنے ملحد آج کے دور میں ایسی بکواس کر نے والے ملتے ہیں۔
ھداھم اللہ إلی صراط مستقیم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4735
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4732
4732. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں عاص بن وائل سہمی کے پاس اپنا حق لینے کے لیے گیا جو اس کے ذمے تھا تو اس نے کہا: جب تک تم محمد ﷺ سے کفر نہیں کرو گے میں تجھے تیرا حق نہیں دوں گا۔ میں نے کہا: تو مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے تب بھی یہ نہیں ہو سکتا۔ اس نے کہا: کیا مرنے کے بعد مجھے دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟ میں نے کہا: ہاں ضرور۔ اس نے کہا: میرے لیے وہاں مال و اولاد ہو گی اور میں تمہارا حق بھی وہیں ادا کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو ہماری آیت کا انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے مال و اولاد مل کر رہے گا۔“ اس حدیث کو سفیان ثوری، شعبہ، حفص، ابو معاویہ اور وکیع نے بھی حضرت اعمش سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4732]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوہار تھے۔
عاص بن وائل سہمی نے ان سے تلوار بنوائی تھی جس کی اجرت اس کے ذمے تھی۔
اس اجرت کا مطالبہ کرنے کے لیے حضرت خباب عاص بن وائل کے پاس گئے جس پر عاص نے یہ بات کہی پھر اس بات کے پس منظر میں ان آیات کا نزول ہوا۔
2۔
یہ عاص بن وائل جناب عمرو بن عاص کا باپ ہے یہ عاص کافر اور معزز سردار سمجھا جاتا تھا جب عمرو بن عاص مسلمان نہیں ہوئے تھے تو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے قریشی وفد کے نمائندہ تھے پھر جب مسلمان ہوئے تو اسلام کے لیے بہت زیادہ خدمات سر انجام دیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4732
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4734
4734. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں زمانہ جاہلیت میں لوہار کا کام کرتا تھا اور عاص بن وائل کے ذمے میرا کچھ قرض تھا۔ میں اس کے پاس اپنا قرض لینے گیا تو وہ کہنے لگا: جب تک تو محمد ﷺ کا انکار نہیں کرے گا، میں تیری اجرت تجھے نہیں دوں گا۔ میں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں حضرت محمد ﷺ کا انکار نہیں کر سکتا تا آنکہ اللہ تعالٰی تجھے مار دے اور پھر تجھے دوبارہ زندہ کر دے۔ عاص نے کہا: پھر مرنے تک میرا پیچھا چھوڑ دو۔ مرنے کے بعد جب میں دوبارہ زندہ ہوں گا تو مجھے وہاں مال و اولاد ملے گی پھر میں اس وقت تیرا قرض واپس کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿أَفَرَءَيْتَ ٱلَّذِى كَفَرَ بِـَٔايَـٰتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا﴾ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4734]
حدیث حاشیہ:
عاص بن وائل نے مذاق اور استہزاء کے طور پر یہ باتیں کی تھیں دور حاضر میں اس قسم کے بے شمار ملحد اور بے دین موجود ہیں جو دین اسلام کا مذاق اڑاتے اور اسے نیچا دکھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
قیامت کے دن ان کا حال بھی عاص بن وائل جیسا ہو گا اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کی ملحدانہ اور بے دینی والی باتوں سے محفوظ رکھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4734
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4735
4735. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں پہلے لوہار تھا اور عاص بن وائل کے ذمے میرا کچھ قرض تھا۔ میں اس کا تقاضا کرنے کے لیے اس کے پاس گیا تو وہ کہنے لگا: جب تک تم محمد ﷺ سے کفر نہیں کرتے تو تمہارا قرض ادا نہیں کروں گا۔ میں نے کہا: میں تو کسی صورت میں ان کا انکار نہیں کروں گا تا آنکہ اللہ تعالٰی تجھے مار دے، پھر زندہ کر دے۔ اس نے کہا: کیا میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا؟ پھر تو مجھے وہاں مال و اولاد بھی ملے گا، اس وقت میں تمہارا قرض بھی ادا کروں گا۔ تب یہ آیات نازل ہوئی: (أَفَرَءَيْتَ ٱلَّذِى كَفَرَ بِـَٔايَـٰتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا ﴿٧٧﴾ أَطَّلَعَ ٱلْغَيْبَ أَمِ ٱتَّخَذَ عِندَ ٱلرَّحْمَـٰنِ عَهْدًا ﴿٧٨﴾ كَلَّا ۚ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُۥ مِنَ ٱلْعَذَابِ مَدًّا ﴿٧٩﴾ وَنَرِثُهُۥ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا ﴿٨٠﴾ ) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4735]
حدیث حاشیہ:
1۔
عاص بن وائل کافر تھا۔
قیامت،حشر ونشر اور جزا وسزا کا منکر تھا اور اس نے بطور مذاق حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ گفتگو کی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے اس پس منظر میں ان آیات کا نزول فرمایا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث چار عنوان میں مختلف طریق سے بیان کی ہے، حالانکہ واقعہ ایک ہی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ چاروں آیات ایک ہی واقعے سے متعلق ہیں۔
(فتح الباري: 548/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4735