صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ قَوْلِهِ: {فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا} إِلَى قَوْلِهِ: {عَجَبًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”پس جب وہ دونوں اس جگہ سے آگے بڑھ گئے تو موسیٰ نے اپنے ساتھی سے فرمایا کہ ہمارا کھانا لاؤ سفر سے ہمیں اب تو تھکن ہونے لگی ہے“ لفظ «عجبا» تک۔
صُنْعًا: عَمَلًا، حِوَلًا: تَحَوُّلًا، قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، إِمْرًا، وَنُكْرًا: دَاهِيَةً، يَنْقَضَّ: يَنْقَاضُ كَمَا تَنْقَاضُ السِّنُّ لَتَخِذْتَ وَاتَّخَذْتَ وَاحِدٌ، رُحْمًا: مِنَ الرُّحْمِ وَهِيَ أَشَدُّ مُبَالَغَةً مِنَ الرَّحْمَةِ وَنَظُنُّ أَنَّهُ مِنَ الرَّحِيمِ وَتُدْعَى مَكَّةُ أُمَّ رُحْمٍ أَيِ الرَّحْمَةُ تَنْزِلُ بِهَا.
لفظ «صنعا» عمل کے معنی میں ہے۔ «حولا» بمعنی پھر جانا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہی تو وہ چیز تھی جو ہم چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ «إمرا» کا معنی عجیب بات۔ «نكرا» کا بھی یہی معنی ہے۔ «ينقض» اور «ينقاض» دونوں کا ایک ہی معنی ہے جیسے کہتے ہیں «تنقاض السن» یعنی دانت گر رہا ہے۔ «لتخذت» اور «واتخذت» (دونوں روایتیں ہیں) دونوں کا معنی ایک ہیں۔ «رحما»، «رحم» سے نکلا ہے جس کے معنی بہت رحمت تو یہ مبالغہ ہے رحمت کا اور ہم سمجھتے ہیں (یا لوگ سمجھتے ہیں) کہ یہ «رحم» سے نکلا ہے۔ اسی لیے مکہ کو «أم رحم» کہتے ہیں کیونکہ وہاں پروردگار کی رحمت اترتی ہے۔