صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
18. سورة الْكَهْفِ:
باب: سورۃ الکہف کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَقْرِضُهُمْ: تَتْرُكُهُمْ، وَكَانَ لَهُ ثُمُرٌ: ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: جَمَاعَةُ الثَّمَرِ، بَاخِعٌ، مُهْلِكٌ، أَسَفًا: نَدَمًا الْكَهْفُ الْفَتْحُ فِي الْجَبَلِ، وَالرَّقِيمُ الْكِتَابُ مَرْقُومٌ مَكْتُوبٌ مِنَ الرَّقْمِ، رَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ: أَلْهَمْنَاهُمْ صَبْرًا، لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا شَطَطًا: إِفْرَاطًا الْوَصِيدُ الْفِنَاءُ جَمْعُهُ، وَصَائِدُ وَوُصُدٌ، وَيُقَالُ الْوَصِيدُ الْبَابُ، مُؤْصَدَةٌ: مُطْبَقَةٌ آصَدَ الْبَابَ، وَأَوْصَدَ، بَعَثْنَاهُمْ: أَحْيَيْنَاهُمْ، أَزْكَى: أَكْثَرُ، وَيُقَالُ: أَحَلُّ، وَيُقَالُ: أَكْثَرُ رَيْعًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُكْلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ: لَمْ تَنْقُصْ، وَقَالَ سَعِيدٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: الرَّقِيمُ اللَّوْحُ مِنْ رَصَاصٍ كَتَبَ عَامِلُهُمْ أَسْمَاءَهُمْ، ثُمَّ طَرَحَهُ فِي خِزَانَتِهِ، فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى آذَانِهِمْ فَنَامُوا، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَأَلَتْ تَئِلُ تَنْجُو، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَوْئِلًا: مَحْرِزًا، لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا: لَا يَعْقِلُونَ.
مجاہد نے کہا «تقرضهم» کا معنی ان کو چھوڑ دیتا تھا، کترا جاتا تھا۔ «وكان له ثمر» میں «ثمر» سے مراد سونا روپیہ ہے۔ دوسروں نے کہا «ثمر» یعنی پھل کی جمع ہے۔ «باخع» کا معنی ہلاک کرنے والا۔ «أسفا» ندامت اور رنج سے۔ «كهف» پہاڑ کا کھوہ یا غار۔ «الرقيم» کے معنی لکھا ہوا بمعنی «مرقوم» یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے «رقم» سے۔ «ربطنا على قلوبهم» ہم نے ان کے دلوں میں صبر ڈالا جیسے سورۃ قصص میں ہے۔ «لولا أن ربطنا على قلبها» (وہاں بھی صبر کے معنی ہیں)۔ «شططا» حد سے بڑھ جانا۔ «مرفقا» جس چیز پر تکیہ لگائے۔ «تزاور» زور سے نکلا ہے یعنی جھک جاتا تھا اسی سے «ازور» ہے بہت جھکنے والا۔ «فجوة» کشادہ جگہ اس کی جمع «فجوات» اور «فجاء» آتی ہے جیسے «زكوة» کی جمع «زكاء» ہے۔ اور «وصيدا» آنگن، صحن اس کی جمع «وصائد» اور «وصد» ہے۔ بعضوں نے کہا «وصيد» کے معنی دروازہ۔ «مؤصدة» کے معنی بند کی ہوئی عرب لوگ کہتے ہیں «آصد الباب» یعنی اس نے دروازہ بند کر دیا۔ «بعثناهم» ہم نے ان کو زندہ کیا کھڑا کر دیا۔ «أزكى طعاما» اور «أوصد الباب» یعنی جو بستی کی اکثر خوراک ہے یا جو کھانا خوب حلال کا ہو، خوب پک کر بڑھ گیا ہو۔ «أكلها» اس کا میوہ، یہ ابن عباس نے کہا ہے۔ «ولم تظلم» میوہ کم نہیں ہوا۔ اور سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا۔ «رقيم» وہ ایک تختی ہے سیسے کی اس پر اس وقت کے حاکم نے اصحاب کہف کے نام لکھ کر اپنے خزانے میں ڈال دی تھی۔ «فضرب الله على آذانهم» اللہ نے ان کے کان بند کر دیئے۔ (ان پر پردہ ڈال دیا) وہ سو گئے۔ ابن عباس کے سوا اور لوگوں نے کہا۔ «موئلا» وال «يئل» سے نکلا ہے۔ یعنی نجات پائے اور مجاہد نے کہا «موئل» محفوظ مقام۔ «لا يستطيعون سمعا» کے معنی وہ عقل نہیں رکھتے۔