Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
14. بَابُ: {وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھیں اور نہ (بالکل) چپکے ہی چپکے پڑھیں“۔
حدیث نمبر: 4723
حَدَّثَنِي طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" أُنْزِلَ ذَلِكَ فِي الدُّعَاءِ".
مجھ سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ آیت دعا کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4723 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4723  
حدیث حاشیہ:
طبری کی روایت میں ہے کہ تشہد میں جو دعا کی جاتی ہے آیت کا نزول اس باب میں ہوا ہے ممکن ہے کہ یہ آیت دوبار اتری ہو۔
ایک بار قراءت کے بارے میں۔
دوبارہ دعا کے بارے میں اس طرح دونوں روایتوں میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔
آیت میں نمازیوں کو اعتدال کی ہدایت کی گئی ہے۔
جو جہری نمازوں سے متعلق ہے۔
شان نزول پچھلی حدیث میں مذکور ہوچکا ہے۔
سند میں مذکور بزرگ ہشام ہیں عروہ ابن زبیر کے بیٹے کنیت ابو منذر قریشی اور مدنی مشہور تابعی اکابر علماء اور جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔
61 ھ میں پیدا ہوئے۔
خلیفہ منصور کے یہاں بغداد میں آئے۔
146 ھ میں بغداد ہی میں انتقال فرمایا۔
رحمه اللہ رحمة واسعة
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4723   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4723  
حدیث حاشیہ:

ظاہری طور پر ان دو احادیث میں تعارض ہے کیونکہ پہلی حدیث میں ہے کہ یہ آیت نماز میں قراءت کے متعلق نازل ہوئی جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ یہ آیت دعاکے متعلق اتری۔
ان میں تطبیق حسب ذیل انداز سے دی گئی ہے۔
۔
ہر راوی نے اپنے علم کے مطابق اس کی شان نزول بیان کی ہے، لہذا ان میں کوئی تعارض نہیں۔
۔
ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول دومرتبہ ہوا ہو:
ایک دفعہ نماز کے متعلق اور دوسری مرتبہ دعا کے بارے میں۔
۔
یہ آیت بنیادی طور پر نماز کے متعلق ہے اور جس روایت میں اس کی شان نزول دعا بیان ہوئی ہے اس میں جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے کیونکہ دعاء نماز کا جز ہے۔
ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے ہوا تو دیکھا کہ وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ بآواز بلند قرآن پڑھ رہے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:
جس سے میں مصروف مناجات تھا وہ میری آواز سن رہا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:
میرامقصد سوئے ہوؤں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
اپنی آواز قدرے بلند کرو۔
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:
اپنی آواز کچھ پست کرو۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1329)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس دعا کے متعلق نازل ہوئی جو دوران نماز میں کی جاتی ہے تاکہ دونوں احادیث میں تطبیق ہوجائے۔
(فتح الباري: 515/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4723