حدیث حاشیہ: 1۔
آیت کریمہ میں:
أمَرْنَا کے متعلق عام طور پر تین قراءتیں ہیں۔
۔
(اَمَرَ، يَاُمُر، از نَصَر) اس کے معنی ہیں:
حکم دینا جمہور کی قراءت یہی ہے اس کے مطابق معنی یہ ہوں گے کہ ہم مال داروں کو کہا ماننے کا حکم دیتے ہیں لیکن وہ نافرمانی پر اتر آتے ہیں۔
۔
(اَمِرَ يَامَرُ از سَمِعَ) حضرت ابن عباس ؓ سے یہی قرآءت منقول ہے۔
اس کے معنی تعداد میں زیادہ کرنا اور انھیں بڑھادینا ہیں۔
اس کی تائید مذکورہ حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سفیان ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق کہا تھا
(لقد أَمِرَ أمرُ ابن أبي كبشة) یعنی ابن ابی کبشہ کا معاملہ بہت بڑھ گیا ہے۔
(صحیح البخاري، بدہ الوحي، حدیث: 7) اس قراءت کے مطابق معنی یہ ہوں گے کہ جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں بدکاروں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔
2۔
اسے میم کی شد سے بھی پڑھا گیا ہے اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو وہاں عیش پرستوں کو قوم کا حاکم بنا دیتے ہیں بہرحال امام بخاری ؒ کا رجحان یہ ہے کہ اس مقام پر دوسری قراءت کے مطابق معنی کیے جائیں کہ وہاں خوش عیش امراء کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔
واللہ اعلم۔