Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4M. بَابُ قَوْلِهِ: {إِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا} الآيَةَ:
باب: آیت «إذا أردنا أن نهلك قرية أمرنا مترفيها» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4711
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنَّا نَقُولُ لِلْحَيِّ إِذَا كَثُرُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَمِرَ بَنُو فُلَانٍ". حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَقَالَ: أَمَرَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم کو منصور نے خبر دی، انہیں ابووائل نے اور ان سے عبداللہ نے بیان کیا کہ جب کسی قبیلہ کے لوگ بڑھ جاتے تو زمانہ جاہلیت میں ہم ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ «أمر بنو فلان‏.‏» (یعنی فلاں کا خاندان بہت بڑھ گیا)۔ ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور اس روایت میں انہوں نے بھی لفظ «أمر‏.‏» کا ذکر کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4711 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4711  
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مطلب اس روایت کے لانے سے یہ ہے کہ قرآن شریف میں جو آتا ہے ﴿أمرنَا مُترَفیھا﴾ یہ بکسرئہ میم ہے۔
ابن عباس ؓ کی یہی قراءت ہے اور مشہور بہ فتح میم ہے۔
ابن عباس کی قراءت پر معنی یہ ہوگا جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
تو وہاں بد کاروں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4711   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4711  
حدیث حاشیہ:

آیت کریمہ میں:
أمَرْنَا کے متعلق عام طور پر تین قراءتیں ہیں۔
۔
(اَمَرَ، يَاُمُر، از نَصَر)
اس کے معنی ہیں:
حکم دینا جمہور کی قراءت یہی ہے اس کے مطابق معنی یہ ہوں گے کہ ہم مال داروں کو کہا ماننے کا حکم دیتے ہیں لیکن وہ نافرمانی پر اتر آتے ہیں۔
۔
(اَمِرَ يَامَرُ از سَمِعَ)
حضرت ابن عباس ؓ سے یہی قرآءت منقول ہے۔
اس کے معنی تعداد میں زیادہ کرنا اور انھیں بڑھادینا ہیں۔
اس کی تائید مذکورہ حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سفیان ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق کہا تھا (لقد أَمِرَ أمرُ ابن أبي كبشة)
یعنی ابن ابی کبشہ کا معاملہ بہت بڑھ گیا ہے۔
(صحیح البخاري، بدہ الوحي، حدیث: 7)
اس قراءت کے مطابق معنی یہ ہوں گے کہ جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں بدکاروں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔

اسے میم کی شد سے بھی پڑھا گیا ہے اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو وہاں عیش پرستوں کو قوم کا حاکم بنا دیتے ہیں بہرحال امام بخاری ؒ کا رجحان یہ ہے کہ اس مقام پر دوسری قراءت کے مطابق معنی کیے جائیں کہ وہاں خوش عیش امراء کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4711