سنن دارمي
من كتاب فضائل القرآن
قرآن کے فضائل
3. باب مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ ثُمَّ نَسِيَهُ:
جو کوئی قرآن پڑھے پھر بھول جائے
حدیث نمبر: 3372
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عِيسَى، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا مِنْ رَجُلٍ يَتَعَلَّمُ الْقُرْآنَ ثُمَّ يَنْسَاهُ، إِلَّا لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهُوَ أَجْذَمُ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: عِيسَى وهُوَ ابْنُ فَائِدٍ.
سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی قرآن پڑھ کر (حفظ کر کے) بھول جائے وہ قیامت کے دن الله تعالیٰ سے کٹے ہوئے ہاتھ والا ہو کر ملے گا۔“ (یعنی خالی ہاتھ یا بے زبان ہو کر ملے گا)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عیسیٰ: ابن فائد ہیں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في هذا الإسناد ثلاث علل: جهالة عيسى بن فائد وجهالة الرجل وضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 3383]»
اس حدیث کی سند میں تین علتیں ہیں جہالہ عیسیٰ بن فائد اور جہالہ رجل اور ضعف یزید بن ابی زیاد۔ یکھئے: [أبوداؤد 1474]، [أحمد 284/5]، [عبدبن حميد 306] و [البزار فى كشف الاستار 1642]، [ابن أبى شيبه 10044]، [عبدالرزاق 5989]، [أبوالفضل عبدالرحمٰن فى فضائل القرآن 1]
وضاحت: (تشریح احادیث 3368 سے 3372)
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کو «كتاب الصلاة، باب التشديد فيمن حفظ القرآن ثم نسيه» میں ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پڑھنے سے مراد حفظ کر کے بھول جانا ہے، اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو ایسے حفاظ کے لئے بڑی وعیدِ شدید تھی جو قرآن یاد کر کے بھول جائیں۔
لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہے، قرآن پاک میں بھی ہے: «﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا .....﴾ [طه: 124-126] » بعض لوگ اس سے مراد قرآن پڑھ کر یا حفظ کر کے بھول جانا لیتے ہیں، لیکن شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس رائے کی تردید کی اور بتایا کہ حدیث ضعیف، اور اس سے مراد قرآن پاک کو، اس کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دینا اور اس پر عمل نہ کرنا ہے، ایسے آدمی کی زندگی میں تنگی رہے گی جو اس سے روگردانی کرے، اور وہ قیامت کے دن اندھا اٹھایا جائے گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! دنیا میں تو میں بصیر (بینا) تھا پھر اندھا بنا کر کیوں اٹھایا گیا؟ ارشادِ ربانی ہوگا: یہ اس لئے کہ تو نے میری آیتوں سے غفلت برتی، اس لئے جا تیری بھی مطلقاً پذیرائی نہ ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ذلت و رسوائی سے بچائے اور قرآن پاک پر عمل کی توفیق بخشے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في هذا الإسناد ثلاث علل: جهالة عيسى بن فائد وجهالة الرجل وضعف يزيد بن أبي زياد