صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
15. سورة الْحِجْرِ:
باب: سورۃ الحجر کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ: الْحَقُّ يَرْجِعُ إِلَى اللَّهِ، وَعَلَيْهِ طَرِيقُهُ لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ عَلَى الطَّرِيقِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَعَمْرُكَ: لَعَيْشُكَ، قَوْمٌ مُنْكَرُونَ: أَنْكَرَهُمْ لُوطٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: كِتَابٌ مَعْلُومٌ: أَجَلٌ، لَوْ مَا تَأْتِينَا: هَلَّا تَأْتِينَا شِيَعٌ أُمَمٌ وَلِلْأَوْلِيَاءِ أَيْضًا شِيَعٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُهْرَعُونَ: مُسْرِعِينَ، لِلْمُتَوَسِّمِينَ: لِلنَّاظِرِينَ، سُكِّرَتْ: غُشِّيَتْ، بُرُوجًا: مَنَازِلَ لِلشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، لَوَاقِحَ: مَلَاقِحَ مُلْقَحَةً، حَمَإٍ، جَمَاعَةُ حَمْأَةٍ وَهُوَ الطِّينُ الْمُتَغَيِّرُ وَالْمَسْنُونُ الْمَصْبُوبُ تَوْجَلْ تَخَفْ، دَابِرَ: آخِرَ، لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ: الْإِمَامُ كُلُّ مَا ائْتَمَمْتَ وَاهْتَدَيْتَ بِهِ، الصَّيْحَةُ: الْهَلَكَةُ
مجاہد نے کہا «صراط على مستقيم» کا معنی سچا راستہ جو اللہ تک پہنچتا ہے۔ اللہ کی طرف جاتا ہے «لبإمام مبين» یعنی کھلے راستے پر۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لعمرك» کا معنی یعنی تیری زندگی کی قسم۔ «قوم منكرون» لوط نے ان کو اجنبی پردیسی سمجھا۔ دوسرے لوگوں نے کہا «كتاب معلوم» کا معنی معین میعاد۔ «لوما تاتينا» کیوں ہمارے پاس نہیں لاتا۔ «شيع» امتیں اور کبھی دوستوں کو بھی «شيع» کہتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يهرعون» کا معنی دوڑتے، جلدی کرتے۔ «للمتوسمين» دیکھنے والوں کے لیے۔ «سكرت» ڈھانکی گئیں۔ «بروجا»، «برج» یعنی سورج چاند کی منزلیں۔ «لواقح»، «ملاقح» کے معنی میں ہے جو «ملفحة» کی جمع یعنی حاملہ کرنے والی۔ «حما»، «حماة» کی جمع ہے بدبودار کیچڑ۔ «مسنون» قالب میں ڈھالی گئی۔ «لا توجل» مت ڈر۔ «دابر اخر» (دم)۔ «لبامام مبين» امام، وہ شخص جس کی تو پیروی کرے اس سے راہ پائے۔ «الصيحة» ہلاکت کے معنی میں ہے۔