Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
29. باب الْوَصِيَّةِ لِلْغَنِيِّ:
مال دار کے لئے وصیت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 3296
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ،"سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ أَوْصَى وَلَهُ أَخٌ مُوسِرٌ، أَيُوصِ لَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَإِنْ كَانَ رَبَّ عِشْرِينَ أَلْفًا، ثُمَّ قَالَ: وَإِنْ كَانَ رَبَّ مِائَةِ أَلْفٍ، فَإِنَّ غِنَاهُ لَا يَمْنَعُهُ الْحَقَّ".
حمید سے مروی ہے، حسن رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کوئی آدمی اپنے مال دار بھائی کے لئے وصیت کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر سکتا ہے، چاہے وہ بھائی بیس ہزار کا مالک ہو، پھر کہا: یا ایک لاکھ کا مالک ہو، اس کی مال داری اس حق سے محروم نہ کرے گی۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3307]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن سعيد بن منصور 378 من طريق هشيم، قال: أخبرنا حميد الطويل بهذا الإسناد]

وضاحت: (تشریح حدیث 3295)
معلوم ہوا کہ وارث کی مالداری کے باوجود کسی بھی غیر وارث شخص کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے۔
اور وہ وصیت کے اس مال کو مالدار ہونے کے باوجود لے سکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

وضاحت: (تشریح حدیث 3295)
معلوم ہوا کہ وارث کی مالداری کے باوجود کسی بھی غیر وارث شخص کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے۔
اور وہ وصیت کے اس مال کو مالدار ہونے کے باوجود لے سکتا ہے۔