سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
9. باب مَا يَجُوزُ لِلْوَصِيِّ وَمَا لاَ يَجُوزُ:
وصی کے لئے کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے؟
حدیث نمبر: 3240
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ شَيْخٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ، قَالَ:"كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَعِنْدَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ، وَأَبُو قِلَابَةَ، إِذْ دَخَلَ غُلَامٌ، فَقَالَ: أَرْضُنَا بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا، بَاعَكُمْ الْوَصِيُّ وَنَحْنُ أَطْفَالٌ، فَالْتَفَتَ إِلَى سُلَيْمَانَ بْنِ حَبِيبٍ، فَقَالَ: مَا تَقُولُ؟ قَالَ: فَأَضْجَعَ فِي الْقَوْلِ، فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ، فَقَالَ: مَا تَقُولُ؟ قَالَ: رُدَّ عَلَى الْغُلَامِ أَرْضَهُ، قَالَ: إِذًا يَهْلِكُ مَالُنَا؟ قَالَ: أَنْتَ أَهْلَكْتَهُ".
عکرمہ نے روایت کیا: دمشق کے ایک شیخ نے کہا: میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس تھا اور ان کے پاس سلیمان بن حبیب اور ابوقلابہ بھی موجود تھے کہ اچانک ایک لڑکا آیا اور گویا ہوا کہ فلاں جگہ ہماری زمین ہے جس کو ہمارے وصی نے آپ کے لئے فروخت کر دیا اس وقت ہم بچے تھے، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سلیمان بن حبیب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے گول مول جواب دیا، پھر وہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: لڑکے کی زمین لوٹا دو، انہوں نے کہا: پھر تو ہمارا مال مارا جائے گا، جواب دیا: آپ نے خود اپنے مال کو ضائع کیا ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3251]»
اس اثر کی سند میں عکرمہ مجہول ہیں، باقی رجال ثقہ ہیں۔ یہ روایت بھی کہیں اور نہیں مل سکی لیکن اس کے ہم معنی۔ دیکھئے: [ابن منصور 329]، [مصنف عبدالرزاق 16479]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق