سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
8. باب الْوَصِيَّةِ بِأَقَلَّ مِنَ الثُّلُثِ:
ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 3230
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ زِيَادٍ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ:"إِنَّ وَارِثِي كَلَالَةٌ، فَأُوصِي بِالنِّصْفِ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَالثُّلُثِ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَالرُّبُع؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَالْخُمُس؟ قَالَ: لَا، حَتَّى صَارَ إِلَى الْعُشْرِ، فَقَالَ: أَوْصِ بِالْعُشْرِ".
علاء بن زیاد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: میرا وارث کلالہ (لا ولد) ہے، کیا میں نصف (آدھے مال) کی وصیت کر سکتا ہوں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اس نے کہا: ایک تہائی کی؟ فرمایا: نہیں، اس نے کہا: چوتھائی؟ فرمایا: نہیں، کہا: خمس کی (پانچویں حصے کی)، فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ وہ دسویں حصے تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ہاں، دسویں حصے کی وصیت کر سکتے ہو۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع العلاء بن زياد روى عن أبيه زياد بن مطر عن عمر بن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 3241]»
اس اثر کی سند کے رجال ثقات ہیں، لیکن اس میں انقطاع ہے کیوں کہ علاء اپنے والد زیاد سے، وہ امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں جن کا مذکور بالا سند میں ذکر نہیں، نیز یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلہ میں قابلِ استدلال نہیں۔ واللہ علم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع العلاء بن زياد روى عن أبيه زياد بن مطر عن عمر بن الخطاب