Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
3. باب مَنْ لَمْ يُوصِ:
جو کوئی وصیت نہ کرے اس کا بیان
حدیث نمبر: 3213
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ الْيَامِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى: أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا، قُلْت: فَكَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الْوَصِيَّةُ أَوْ: أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ؟ فَقَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ. وقَالَ هُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ: أَبُو بَكْرٍ كَانَ يَتَأَمَّرُ عَلَى وَصِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَّ أَبُو بَكْرٍ أَنَّهُ وَجَدَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا، فَخَزَمَ أَنْفَهُ بِخِزَامَةٍ ذلِكَ.
طلحہ بن مصرف الیامی نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر کیسے لوگوں پر وصیت لازم ہوئی؟ یا ان کو وصیت کا حکم کیوں دیا گیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ: یہ تو کتاب اللہ القرآن سے (واضح) ہے، غالباً اشاره «إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ . . . . . .» [بقره: 180/2] کی طرف طرف ہے۔ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کو پورا کرنا ایسے پسند کرتے تھے جیسے تابعدار اونٹنی نکیل ڈلوا کر تابعداری کرتی ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وموصول بالإسناد السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 3224]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2740]، [مسلم 1634]، [ابن ماجه 2696]، [ابن حبان 6023]، [الحميدي 739، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 3212)
ہزیل رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی ہوتی تو اس کی سب سے زیادہ پیروی کرنے والے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، ان سے یہ گمان کیا ہی نہیں جا سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے کہا ہو اور وہ خود خلیفہ بن بیٹھیں، تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ثقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کے لئے جھگڑا چل رہا تھا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: دو میں سے کسی کو منتخب کر لو سیدنا عمر یا سیدنا ابوعبیده رضی اللہ عنہما کو، انہوں نے اپنا نام ہی نہیں لیا، سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ پر یہ بہتان ہے کہ انہوں نے خلافت غصب کر لی، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ یا حکم ہوتا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا ہے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دل و جان سے قبول کرنے اور بلا مشورہ ہی ان کو خلیفہ بنانے میں پیش پیش ہوتے۔
«(سبحانك هٰذا بهتان عظيم)

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وموصول بالإسناد السابق