سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان
23. باب قَوْلِ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللَّهِ وَزَيْدٍ في الرَّدِّ:
سیدنا علی و سیدنا عبداللہ و سیدنا زید رضی اللہ عنہم کی باقی بچے ترکے میں رائے کا بیان
حدیث نمبر: 2981
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ لَا يَرُدُّ عَلَى أَخٍ لِأُمٍّ مَعَ أُمٍّ، وَلا عَلَى جَدَّةٍ، إِذَا كَانَ مَعَهَا غَيْرُهَا مَنْ لَهُ فَرِيضَةٌ، وَلَا عَلَى ابْنَةِ ابْنٍ، مَعَ ابْنَةِ الصُّلْبِ، وَلَا عَلَى امْرَأَةٍ وَزَوْج. وَكَانَ عَلِيٌّ "يَرُدُّ عَلَى كُلِّ ذِي سَهْمٍ، إِلَّا الْمَرْأَةَ وَالزَّوْجَ"..
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ماں کے ساتھ پدری بھائی پر بقیہ ترکہ نہیں لوٹاتے تھے، اور نہ جدہ پر بقیہ مال لوٹاتے تھے جب کہ اس کے ساتھ صاحبِ فریضہ موجود ہو، اور نہ پوتی پر ما بقیٰ لوٹاتے تھے جب کہ حقیقی بیٹی موجود ہو، اور نہ بیوی اور شوہر پر لوٹاتے تھے، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہر صاحبِ سہم پر باقی بچا لوٹا دیتے تھے سوائے بیوی اور شوہر کے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 2991]»
محمد بن سالم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن صحیح سند سے بھی یہ اثر موقوفاً مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11220]، [عبدالرزاق 19128]، [ابن منصور 112-116]، [البيهقي 244/6]
وضاحت: (تشریح احادیث 2977 سے 2981)
یہ مسئلہ بقیہ بچے مال کے بارے میں ہے کہ اصحاب القروض کو مال دینے کے بعد جو مال ترکے میں سے بچے وہ کس کو دیا جائے؟ بعض اصحاب السہام کو لوٹا دیتے، اور بعض صحابہ کی رائے یہ تھی کہ جو بچے اس کو بیت المال میں دے دینا چاہے، سیدنا زید رضی اللہ عنہ اس کے قائل تھے۔
کما سیأتی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم