Note: Copy Text and to word file

سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
100. باب في جَنَّاتِ الْفِرْدَوْسِ:
جنت الفردوس کا بیان
حدیث نمبر: 2857
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قُدَامَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ أَرْبَعٌ: ثِنْتَانِ مِنْ ذَهَبٍ: حِلْيَتُهُمَا وَآنِيَتُهُمَا، وَمَا فِيهِمَا، وَثِنْتَانِ مِنْ فِضَّةٍ: حِلْيَتُهُمَا وَآنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَلَيْسَ بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِيَاءِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ، وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَشْخُبُ مِنْ جَنَّاتِ عَدْنٍ فِي جَوْبَةٍ ثُمَّ تَصْعَدُ بَعْدُ أَنْهَارًا". قَالَ عَبْد اللَّهِ: جَوْبَةٌ: مَا يُجَابُ عَنْهُ الْأَرْضُ.
ابوبکر بن عبداللہ بن قیس نے اپنے والد سے روایت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنات الفردوس چار ہیں، دو جنتیں سونے کی، وہ اور اس کے زیور (سامانِ آرائش) اور برتن اور جو کچھ بھی ان میں ہے سب سونے کا، اور دو جنتیں چاندی کی، ان کا سامانِ آرائش، برتن اور سب کچھ چاندی کا اور وہاں جنات عدن میں قوم اور اللہ کے دیدار کے درمیان اللہ کے چہرے پر صرف چادرِ کبریائی رکاوٹ ہوگی، اور یہ نہریں جنات عدن سے نکلتی ہیں اور بعد میں گڑھے سے نہروں میں گرتی ہیں۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: جوبہ جس سے زمین کا سفر طے کیا جائے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف أبي قدامة الحارث بن عبيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2864]»
ابوقدامہ حارث بن عبید کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن یہ حدیث صحیحین میں موجود ہے بدون ذکر الانہار۔ دیکھئے: [بخاري 7444]، [مسلم 180]، [أبويعلی 3366]، [ابن حبان 7386] و [الطيالسي 243/2، 2839، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 2856)
«جَوْبَةٍ»: گھڑے اور کنویں کو کہتے ہیں، اور جاب الأرض سے مراد سفر طے کرنا، جیسا کہ امام دارمی رحمہ اللہ نے شرح کی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي قدامة الحارث بن عبيد

وضاحت: (تشریح حدیث 2856)
«جَوْبَةٍ» : گھڑے اور کنویں کو کہتے ہیں، اور جاب الأرض سے مراد سفر طے کرنا، جیسا کہ امام دارمی رحمہ اللہ نے شرح کی ہے۔
واللہ اعلم۔