Note: Copy Text and to word file

سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
53. باب في قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَباً»:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ”اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہوتا تو“
حدیث نمبر: 2802
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَا يَسُرُّنِي أَنَّ جَبَلَ أُحُدٍ لِي ذَهَبًا أَمُوتُ يَوْمَ أَمُوتُ عِنْدِي دِينَارٌ أَوْ نِصْفُ دِينَارٍ إِلَّا لِغَرِيمٍ".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: مجھے پسند نہیں ہے کہ میرے لئے جبلِ احد سونے کا ہو اور میں جس دن وفات پاؤں اس میں سے میرے پاس ایک یا آدھا دینار بھی باقی رہے سوائے اس کے جو میں قرض خواہ کے لئے بچائے رکھوں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2809]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أحمد 148/5]، [ابن حبان 169]، [موارد الظمآن 10، وله شاهد عند البخاري 1408]

وضاحت: (تشریح حدیث 2801)
یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مال و دولت سے بے رغبتی اور جود و سخاوت پر دلالت کرتی ہے۔
مال جمع کرنا دنیا داروں کا کام ہے: «‏‏‏‏﴿وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾ [الفجر: 20] » فخرِ کائنات کیسے اس کو پسند فرماتے، لیکن حوائجِ ضروریہ کے لئے پس انداز کرنا اور قرض کے لئے اٹھا رکھنا معیوب نہیں، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے، قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے: «﴿وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا﴾ [الإسراء: 29] » یعنی اتنے بھی ہاتھ کشادہ نہ کرو (یعنی اتنا خرچ نہ کرو) کہ تم خالی ہاتھ ہو کر شرمندہ اور عاجز بن کر بیٹھ جاؤ۔
بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کرو، مال خرچ کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لو، یہی بہتر طریقہ ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد

وضاحت: (تشریح حدیث 2801)
یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مال و دولت سے بے رغبتی اور جود و سخاوت پر دلالت کرتی ہے۔
مال جمع کرنا دنیا داروں کا کام ہے: «‏‏‏‏﴿وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾ [الفجر: 20] » ‏‏‏‏ فخرِ کائنات کیسے اس کو پسند فرماتے، لیکن حوائجِ ضروریہ کے لئے پس انداز کرنا اور قرض کے لئے اٹھا رکھنا معیوب نہیں، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے، قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے: «﴿وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا﴾ [الإسراء: 29] » ‏‏‏‏ یعنی اتنے بھی ہاتھ کشادہ نہ کرو (یعنی اتنا خرچ نہ کرو) کہ تم خالی ہاتھ ہو کر شرمندہ اور عاجز بن کر بیٹھ جاؤ۔
بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کرو، مال خرچ کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لو، یہی بہتر طریقہ ہے۔
واللہ اعلم۔