سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
45. باب: «لاَ يَتَمَنَّى أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ»:
تم میں سے کوئی بھی موت کی آرزو نہ کرے
حدیث نمبر: 2793
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنِي شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "لَا يَتَمَنَّى أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ: إِمَّا مُحْسِنًا، فَلَعَلَّهُ أَنْ يَزْدَادَ، إِحْسَانًا، وَإِمَّا مُسِيئًا، فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعْتِبَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”تم میں سے کوئی شخص ہرگز موت کی آرزو نہ کرے، اگر وہ نیک ہے تو ممکن ہے اور زیادہ نیکی کرے اور اگر برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ کر لے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2800]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5673، 7235]، [مسلم 2682]، [نسائي 1818]، [ابن حبان 3000]، [عبدالرزاق 20634]۔ «يستعتب» کا مطلب ہے برائی چھوڑ کر الله کی رضا مندی طلب کرنا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2792)
اس حدیث سے موت کی دعا یا آرزو کرنے کی ممانعت ثابت ہوئی، امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اگر دین کی آفت ہو، یا فتنہ میں پڑنے کا ڈر ہو تو موت کی آرزو کرنا جائز ہے، اور دین میں خرابی کے ڈر سے بعض سلف نے ایسا کیا ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ صبر کرے اور قضاءِ الٰہی سے راضی رہے۔
ہر رنگ میں راضی برضا ہو تو مزہ دیکھ
دنیا ہی میں بیٹھے ہوئے جنت کی فضا دیکھ
حدیث میں آیا ہے: اگر موت ہی مانگے تو یوں کہے: اے الله! اگر حیات میرے لئے بہتر ہے تو زندہ رکھ اور وفات میرے لئے بہتر ہو تو مجھے وفات دے دے۔
بعض لوگ ذرا سی پریشانی اور تکلیف سے گھبرا کر یا غصہ میں کہہ دیتے ہیں: اس سے بہتر ہے اللہ مجھے موت دے دے۔
یہ کہنا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح