سنن دارمي
من كتاب الاستئذان
کتاب الاستئذان کے بارے میں
59. باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَسَمْاءِ:
جو نام رکھنے مستحب ہیں
حدیث نمبر: 2730
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا عَبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ: عَبْدُ اللَّهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 2737]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2132]، [أبوداؤد 4949]، [ترمذي 2835]، [ابن ماجه 3728]، [أحمد 24/2]، [شرح السنة 3367]، [طبراني 370/12، 13374]، [الحاكم 274/4]
وضاحت: (تشریح احادیث 2728 سے 2730)
عبداللہ، عبدالرحمٰن، اسی طرح عبدالقدوس و عبدالسلام وغیرہ نام رکھنا مستحب ہے، کیونکہ اس قسم کے ناموں میں عبودیت و بندگی ظاہر ہوتی ہے، اس کے بعد انبیاء کرام کے نام رکھنا بھی بہتر ہے، لیکن وہ نام جن کے معانی اچھے نہ ہوں یا برے لوگوں کے نام ہوں، جیسے فرعون، ہامان، شداد، شیطان وغیرہ رکھنا مکروہ ہیں، اور جن ناموں سے شرک ظاہر ہو ایسے نام رکھنا بالاتفاق منع ہے، جیسے عبدالنبی، عبدالحسین وغیرہ۔
بعض علماء نے غلام محمد یا غلام علی اور غلام حسین کا نام رکھنا مکروہ کہا ہے۔
یہ شاید اس لئے کہ بندہ و غلام ہر انسان الله تعالیٰ کا ہے، بندگی اور غلامی کی نسبت کسی مخلوق کی طرف مناسب نہیں۔
والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق