سنن دارمي
من كتاب الاستئذان
کتاب الاستئذان کے بارے میں
57. باب: «تَسَمَّوْا بِاسْمِي وَلاَ تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي»:
میرے نام پر نام رکھو میری کنیت پر کنیت نہ رکھو
حدیث نمبر: 2728
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَسَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے نام پر نام رکھو، میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2735]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 110، 3539]، [مسلم 2134]، [أبوداؤد 4965]، [ابن ماجه 3735]، [أبويعلی 6102]، [ابن حبان 5812]، [الحميدي 1178]
وضاحت: (تشریح حدیث 2727)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم تھی اور نام محمد و احمد تھا۔
اس حدیث میں کنیت ابوالقاسم رکھنے کی ممانعت ہے جس میں کئی حکمتیں ہیں: ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نام اور کنیت رکھنے میں پیغاماتِ الٰہیہ کے خلط ملط ہونے، اور جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ ہو اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کا اندیشہ و امکان تھا۔
اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔
بعض علماء کے نزدیک یہ ممانعت اب تک برقرار ہے، بعض علماء نے کہا کہ اب ایسا اندیشہ نہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور کنیت ایک ساتھ بھی رکھی جاسکتی ہے، اور بعض نے کہا کہ کنیت اور نام جمع کرنا منع ہے، دوسرا قول راجح ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه