سنن دارمي
من كتاب الاستئذان
کتاب الاستئذان کے بارے میں
41. باب في الدُّعَاءِ إِذَا سَافَرَ وَإِذَا قَدِمَ:
دعائے سفر کا بیان
حدیث نمبر: 2708
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَارِقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَافَرَ فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ، كَبَّرَ ثَلَاثًا وَيَقُولُ:"سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ {13} وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ {14} سورة الزخرف آية 13-14. اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِي هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنْ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى. اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا السَّفَرَ، وَاطْوِ لَنَا بُعْدَ الْأَرْضِ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا، وَاخْلُفْنَا فِي أَهْلِنَا بِخَيْرٍ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر نکلتے اور سواری پر بیٹھ جاتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے پھر یہ دعا کرتے تھے: ” «سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا ........ إلى آخره» پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اس سواری کو مسخر کر دیا ہے حالانکہ ہم اس کو قابو میں لانے والے نہ تھے اور ہم اپنے رب کی ہی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور اس عمل کا سوال کرتے ہیں جس کو تو پسند کرے، اے اللہ! ہمارا سفر آسان فرما دے اور زمین کی دوری ہمارے لئے لپیٹ دے۔ اے اللہ! سفر میں تو ہی (ہمارا) ساتھی ہے اور گھر والوں میں (ہمارا) نائب ہے۔ اے اللہ! ہمارے سفر میں ہمارے ساتھ رہ اور ہماری غیر موجودگی میں ہمارے اہل کے ساتھ بھی رہ۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2715]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1342]، [أبوداؤد 2599]، [ترمذي 3447]، [ابن حبان 2695]
وضاحت: (تشریح احادیث 2706 سے 2708)
ہر حال میں ہماری اور اہل و عیال کی حفاظت فرما اور اپنے حفظ و امان میں رکھ۔
سفر کرتے وقت یہ دعا پڑھنا مستحب ہے۔
بعض روایات کے الفاظ کچھ مختلف ہیں، اور دیگر ادعیہ صحیحہ بھی منقول ہیں جنہیں پڑھنا باعثِ خیر و برکت ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح