Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
6. بَابُ قَوْلِهِ: {وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی اور جو لوگ کہ سونا اور چاندی زمین میں گاڑ کر رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے! آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں“۔
حدیث نمبر: 4660
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: مَرَرْتُ عَلَى أَبِي ذَرٍّ، بِالرَّبَذَةِ، فَقُلْتُ" مَا أَنْزَلَكَ بِهَذِهِ الْأَرْضِ؟" قَالَ: كُنَّا بِالشَّأْمِ، فَقَرَأْتُ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ سورة التوبة آية 34"، قَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا هَذِهِ فِينَا، مَا هَذِهِ إِلَّا فِي أَهْلِ الْكِتَابِ، قَالَ: قُلْتُ:" إِنَّهَا لَفِينَا وَفِيهِمْ".
ہم سے قتیبہ بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے زید بن وہب نے بیان کیا کہ میں مقام ربذہ میں ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس جنگل میں آپ نے کیوں قیام کو پسند کیا؟ فرمایا کہ ہم شام میں تھے۔ (مجھ میں اور وہاں کے حاکم معاویہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہو گیا) میں نے یہ آیت پڑھی «والذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله فبشرهم بعذاب أليم‏» کہ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں، آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ تو معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں ہے (جب وہ زکوٰۃ دیتے رہیں) بلکہ اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ فرمایا کہ میں نے اس پر کہا کہ یہ ہمارے بارے میں بھی ہے اور اہل کتاب کے بارے میں بھی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4660 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4660  
حدیث حاشیہ:
بس اس مسئلہ پر مجھ سے امیر معاویہ ؓ کی تکرار ہو گئی۔
معاویہ نے میری شکایت حضرت عثمان ؓ کو لکھی۔
انہوں نے مجھ کو شام سے یہاں بلالیا۔
میں مدینہ آ گیا وہاں بھی بہت لوگ میرے پاس اکٹھے ہو گئے۔
میں نے حضرت عثمان ؓ سے اس کا ذکر کیا انہوں نے کہا کہ تم چاہو تو یہیں الگ جا کر رہو اس وجہ سے میں یہاں جنگل میں آ کر رہ گیا ہوں۔
حضرت ابو ذر غفاری ؓ بہت بڑے زاہد تارک الدنیا بزرگ تھے۔
اس لئے ان کی دوسرے لوگوں سے کم بنتی تھی۔
آخر وہ خلوت پسند ہو گئے اور اسی خلوت میں ان کی وفات ہو گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4660   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4660  
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری روایت میں اس واقعے کی پوری تفصیل ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
میں شام میں تھا کہ اس آیت کے متعلق میری حضرت امیرمعاویہ ؓ سے کچھ تکرار ہوگئی۔
انھوں نے حضرت عثمان ؓ کو میرے متعلق شکایت کی تو انھوں نے مجھے مدینہ طیبہ بلالیا۔
میں مدینہ طیبہ آگیا تو میرے پاس بہت سے لوگ جمع ہوگئے، گویا انھوں نے مجھے اس سے پہلے کبھی دیکھا نہیں تھا۔
میں نے حضرت عثمان ؓ کو صورت حال سے آگاہ کیا تو انھوں نےفرمایا:
تم چاہوتو یہیں الگ ہوکررہو۔
میں نے یہاں رہنے کو پسند کیا۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1406)

حضرت امیر معاویہ ؓ کا موقف تھا کہ یہ آیت مسلمانوں کے متعلق نہیں بشرط یہ کہ وہ زکاۃ ادا کرتے ہوں بلکہ یہ اہل کتاب کے متعلق ہے جبکہ حضرت ابوزر ؓ کہتے تھے کہ یہ آیت عام ہے ہمیں اور اہل کتاب دونوں کو شامل ہے۔
جمہور اہل علم کاموقف ہے کہ اگرمال سے زکاۃ ادا کردی جائے تو وہ خزانہ نہیں رہتا جس پر سخت وعید آئی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4660