حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ:" بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْحَجَّةِ فِي الْمُؤَذِّنِينَ، بَعَثَهُمْ يَوْمَ النَّحْرِ يُؤَذِّنُونَ بِمِنًى، أَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ"، قَالَ حُمَيْدٌ: ثُمَّ أَرْدَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُؤَذِّنَ بِبَرَاءَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:" فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ فِي أَهْلِ مِنًى يَوْمَ النَّحْرِ بِبَرَاءَةَ، وَأَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4656
حدیث حاشیہ:
1۔
فتح مکہ سے پہلے مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے بیت اللہ میں داخل کے متعلق مختلف پابندیاں لگا رکھی تھیں کہ وہ اس میں عبادات حج وعمرہ نہیں کر سکتے۔
رمضان 8 ہجری میں جب مکہ فتح ہوا تو وہ پابندیاں خود بخود اٹھ گئیں اب 8 ہجری میں تو مسلمان حج ہی نہ کر سکے کیونکہ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین اور طائف سے واپس مدینے پہنچنے تک اتنا وقت ہی نہ تھا کہ مسلمان حج کے لیے مدینہ طیبہ سے آتے 9 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حج کے لیے روانہ فرمایا اور سیدنا ابو بکر ؓ کو اس قافلہ حج کا امیر مقرر کردیا۔
ابھی تک مشرکین کے بیت اللہ میں داخلے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی لہٰذا اس حج میں مشرکین بھی شریک تھے۔
مسلمانوں نے اپنے طریقے پر حج کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر۔
2۔
سیدنا ابو بکر ؓ کی روانگی بعد سورت توبہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جس بنا پر مشرکین کے لیے بیت اللہ میں داخلے پر نہ صرف پابندی لگائی گئی بلکہ ان سے مکمل اعلان براءت کیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس اعلان کی اہمیت کے پیش نظر یہ بہتر خیال کیا کہ یہ اعلان آپ کے کسی قریبی رشتے دار کی طرف سے ہونا چاہیے جو مشرکین کی نگاہ میں آپ ہی کے قائم مقام خیال کیا جا سکے چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی ؓ کو بھی بھیج دیا کہ وہ حج کے عظیم اجتماع میں ان آیات کا اعلان کردیں اس وقت تک بیت اللہ کا ننگا طواف ہوتا تھا اور مشرکین اس طرح طواف کرنے کو اپنے خیال کے مطابق بہتر سمجھتے اور کہتے تھے کہ اس میں زیادہ انکساری پائی جاتی ہے جبکہ اسلام اس قسم کی فحاشی کو بیت اللہ میں کیونکر برداشت کر سکتا تھا چنانچہ یہ اعلان کردیا گیا کہ آئندہ کبھی کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکےگا، نیز مشرکین خود کو بیت اللہ کا متولی خیال کرتے تھے اب اعلان کردیا گیا کہ متولی ہونا تو درکنار وہ آئندہ کعبے کے قریب بھی نہیں پھٹک سکیں گے۔
اسی طرح دوسرے اعلانات بھی کیے گئے جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4656
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3287
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع سے پہلے جس حج کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا، اس میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے ایک گروہ کے ساتھ، قربانی کے دن بھیجا کہ لوگوں میں اعلان کرو، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے، اور کوئی شخص برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے، ابن شہاب کہتے ہیں، کہ حمید بن عبدالرحمان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کی بنا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3287]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مشرک بیت اللہ میں حج کے لیے داخل نہیں ہو سکتا،
اور حج ایک فریضہ ہے جس کے لیے بیت اللہ مقرر ہے،
تو اگر مشرک حج کے لیے داخل نہیں ہو سکتا تو عام حالات میں بالاولیٰ داخل نہیں ہو سکتا،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک تمام حرم کا یہی حکم ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مشرک (کافر)
کسی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک حرم مکہ کے سوا مساجد میں مسلمانوں کی اجازت سے داخل ہو سکتا ہے،
احناف کے نزدیک غیر معاہد یعنی جن کا مسلمانوں سے معاہدہ نہ ہو کو حرم اور باقی مساجد میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا،
لیکن اہل ذمہ کو حرم اور باقی تمام مساجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا جائے گا۔
2۔
حج کو حج اکبر کہتے ہیں اور عمرہ کو حج اصغر اور حج اکبر کا دن قربانی کا دن ہے اور مجاہد کے نزدیک حج قران حج اکبر ہے اور حج افراد،
حج اصغر ہے،
بقول عرفہ کا دن حج اصغر ہے اور قربانی کا دن حج اکبر،
اور امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج تمام ایام ہی حج اکبر کے دن ہیں،
ان تمام اقوال میں کوئی اختلاف نہیں ہے،
کیونکہ یہاں محض اضافت و نسبت کی بنا پر حج اکبر یا حج اصغر کا نام دیا ہے،
اور اس کی بڑی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تھا اس سال یوم عرفہ جمعہ کے دن تھا اور اس حج کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اکبر کا نام دیا تھا،
حالانکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کے موقع پر عرفہ کا دن جمعہ کا دن نہیں تھا اور اس میں مشرکوں سے برات کا ا علان قربانی کے دن کیا گیا ہے،
اور اس اعلان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ﴾ (اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کو صاف اطلاع ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہے۔
)
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حج اکبر کا دن قربانی کا دن ہے جس میں حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کیے جاتے ہیں۔
اس لیے اس دن منیٰ میں اعلان براء ت کیا گیا تھا اس لیے یہ بات بنا دلیل ہی مشہور ہے کہ جو حج جمعہ کےدن آئے وہ حج اکبر ہے،
اسی طرح یہ حدیث بھی بے اصل ہے کہ جب جمعہ کا دن عرفہ کا دن ہوتا ہے تو یہ حج باقی دنوں کے ستر(70)
حجوں سے افضل ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3287
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1622
1622. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ حجۃالوداع سے قبل رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک سال امیر حج بنایا۔ انھوں نے مجھے دسویں ذوالحجہ چند آدمیوں کے ہمراہ لوگوں میں یہ منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ اس سال کے بعد نہ کوئی مشرک حج کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص کعبہ کا طواف کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1622]
حدیث حاشیہ:
عہد جاہلیت میں عام اہل عرب یہ کہہ کر کہ ہم نے ان کپڑوں میں گناہ کئے ہیں ان کو اتار دیتے اور پھر یا تو قریش سے کپڑے مانگ کر طواف کرتے یا پھر ننگے ہی طواف کرتے۔
اس پر آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان کرایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1622
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4363
4363. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو حجۃ الوداع سے پہلے جس حج کا میر بنا کر بھیجا تھا، اس میں حضرت ابوبکر ؓ نے مجھے کئی آدمیوں کے ہمراہ قربانی کے دن یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے کے لیے نہ آئے اور نہ کوئی شخص بیت اللہ کا ننگا طواف کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4363]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ سنہ 9ھ کا ہے 10 ھ میں تو حجۃ الوداع ہوا۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ ماہ ذی القعدہ سنہ9ھ میں مدینہ سے نکلے تھے ان کے ساتھ تین سو اصحاب تھے اور آنحضرت ﷺ نے بیس اونٹ ان کے ساتھ بھیجے تھے۔
اس حج میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ سرکاری اعلان فرمایا جو روایت میں مذکو ر ہے کہ آئندہ سال سے کعبہ مشرکین سے بالکل پاک ہوجائے گااور ننگ دھڑنگ ہوکر حج کرنے کی باطل رسم بھی ختم ہوجائے گی، جوعرصہ سے جاری تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4363
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4655
4655. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت ابوبکر ؓ نے اس حج میں (جس میں وہ امیر حج تھے) نحر کے دن اعلان کرنے والوں میں بھیجا کہ وہ منٰی میں اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو پیچھے سے بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اعلان براءت کریں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ حضرت علی ؓ نے بھی ہمارے ساتھ نحر کے دن منٰی میں موجود لوگوں میں اعلان براءت کیا، نیز یہ کہ آئندہ سال کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ ہو کر اس کا طواف ہی کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4655]
حدیث حاشیہ:
اس سرکاری اہم اعلان کے لئے پہلے حضرت ابو بکر ؓ کو مامور کیا گیا ہے۔
بعد میں آپ کو بذریعہ وحی بتلایا گیا کہ آئین عرب کے مطابق ایسے اہم اعلان کے لئے خود آنحضرت ﷺ کا ہونا ضروری ہے ورنہ آپ ﷺ کے اہل بیت سے کسی کو ہونا چاہئے اس لئے بعد میں حضرت علی ؓ کو روانہ کیا گیا۔
حضرت صدیق اکبر ؓ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو حضرت علی ؓ کے ساتھ بطور منادی مقرر کردیا تھا۔
(فتح الباري)
حضرت علی ؓ نے جن امور کا اعلان کیا وہ یہ تھے (لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَلَا يَجْتَمِعُ مُسْلِمٌ مَعَ مُشْرِكٍ فِي الْحَجِّ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَمَنْ كَانَ لَهُ عَهْدٌ فَعَهْدُهُ إِلَى مُدَّتِهِ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ عَهْدٌ فَأَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ) (فتح الباري)
یعنی جنت میں صرف ایمان والے ہی داخل ہوں گے اور اب سے کوئی آدمی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کر سکے گا اور نہ آئندہ سے حج کے لئے کوئی مشرک مسلمانوں کے ساتھ جمع ہو سکے گا اور جس کے لئے اسلام کی طرف سے کوئی عہد ہے اور جس مدت کے لئے ہے وہ بر قرار رہے گا اور جس کے لئے کوئی عہد نامہ نہیں ہے اس کی مدت صرف چار ماہ مقرر کی جارہی ہے۔
اس عرصہ میں وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی سازشوں کو ختم کرکے ذمی بن جائیں ورنہ بعدمیں ان کے خلاف اعلان جنگ ہوگا۔
حکومت اسلامی کے قیام کے بعد اصلاحات کے سلسلہ میں یہ کلیدی اعلانات تھے جو ہر خاص وعام تک پہنچا ئے گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4655
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4657
4657. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جس حج میں حضرت ابوبکر ؓ کو حجۃ الوداع سے پہلے امیر حج بنا کر بھیجا تھا، اس میں انہوں (حضرت ابوبکر ؓ) نے مجھے چند لوگوں میں روانہ کیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کریں: ”اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔“ (راوی حدیث) حضرت حمید، سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث کی بنا پر کہا کرتے تھے کہ نحر کا دن حج اکبر کا دن ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4657]
حدیث حاشیہ:
لوگوں میں مشہور ہے کہ جمعہ کے دن حج ہو تو وہ حج اکبر ہے یہ صحیح نہیں ہے۔
اس حدیث کی رو سے یوم النحر کا دن حج اکبر کا دن ہے۔
یوم التر ویہ میں حضرت صدیق اکبر ؓ نے خطبہ دیا اور حضرت علی ؓ نے سورت براءت کو پڑھ کر سنایا تھا۔
یہ اعلان 9ھ میں کیا گیا تھا۔
(فتح)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4657
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3177
3177. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے بھی حضرت ابو بکر ؓ نے ان لوگوں کے ساتھ روانہ کیا جنھوں نےمنیٰ کے مقام پر قربانی کے دن یہ اعلان کیاتھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور کوئی شخص ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا اور حج اکبر کا دن دسویں ذی الحجہ کا دن ہے۔ اسے حج اکبر اس لیے کہا گیا کہ لوگ عمرے کو حج اصغر کہنے لگے تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اس سال مشرکین سے جو عہد وپیمان لیا تھا اسے واپس کردیا اور دوسرے سال حجۃ الوداع میں جب نبی کریم ﷺ نے حج کیا تو کوئی مشرک شریک نہ ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3177]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حج اکبر حج ہی کا نام ہے۔
اور یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ حج اکبر وہ حج ہے جس میں عرفہ کا دن جمعہ کو پڑھے، اس بارے میں کوئی صحیح ثبوت نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3177
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:369
369. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے کہا: مجھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حج میں قربانی کے دن منادی کرنے والوں کے ہمراہ روانہ کیا تاکہ ہم منیٰ میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی شخص برہنہ ہو کر طواف نہ کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ مشرکین سے لاتعلقی کا اعلان کر دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ حضرت علی ؓ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منیٰ کے لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ آج کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:369]
حدیث حاشیہ: 1۔
بیت اللہ کا برہنہ طواف کرنے کی ممانعت ہی ستر پوشی کے وجوب کی دلیل ہے۔
عنوان کے ساتھ حدیث کے اسی جز کی مطابقت ہے۔
(عمدة القاري: 291/3) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں عورت بیت اللہ کا طواف بالکل برہنہ ہو کر کرتی اور کہتی کہ مجھے کوئی طواف کے لیے اتنا کپڑا عاریتاً دے دے جس سے میں اپنی شرم گاہ ڈھانپ سکوں اور وہ شعر پڑھتی۔
آج جسم کا کچھ حصہ یا تمام جسم ننگا ہے اور جو حصہ عریاں ہے اسے کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں کرتی ہوں اللہ تعالیٰ نے اسی عریانی کے سد باب کے لیے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ﴾ ”اے اولاد آدم!ہر مسجد میں نماز کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔
“ (صحیح مسلم، التفسیر، حدیث: 7551 (3028)
2۔
جب حج فرض ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو حجاج کا امیر بنا کر روانہ فرمایا:
انھوں نے مکہ پہنچ کر حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اعلان پر مامور کیا جس کا ذکر حدیث میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جس اعلان براءت کے لیے حضرت علی ؓ کو روانہ فرمایا تھا وہ سورہ براءت کی ابتدائی آیات تھیں۔
جامع ترمذی میں اس کی تفصیل ہے:
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ پہلے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو ان امور کے اعلان کرنے کا حکم دیا۔
پھر حضرت علیؓ کو حکم فرمایا:
پھر جب دونوں حضرات نے حج کر لیا تو حضرت علی ؓ نے چار باتوں کا اعلان کیا:
اللہ اور اس کا رسول اللہ ﷺ ہر مشرک سے بری الذمہ ہے، انھیں صرف چار ماہ کی رعایت ہے۔
اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کے حج کے لیے نہیں آسکے گا۔
کوئی شخص برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا۔
اللہ کی جنت میں صرف اہل ایمان کو داخلہ ملے گا۔
حضرت علی ؓ اعلان کرتے تھے جب وہ تھک جاتے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کھڑے ہو کر انھی باتوں کا اعلان کرتے۔
(جامع الترمذي، التفسیر، حدیث: 3091)
3 حضرت علی ؓ کو الگ سے آیات براءت پڑھنے کے حکم میں یہ حکمت تھی کہ ان آیات میں نقض عہد کی بات تھی اور عرب کے دستور کے مطابق نقض عہد وہی کر سکتا تھا جس نے عہد باندھا ہو یا پھر کوئی ایسا شخص یہ کام کرتا جو اس کے اہل بیت سے ہوتا۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے چاہا کہ نقض عہد کی بات دو ٹوک ہو جائے اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔
بعض نے کہا ہے کہ سورہ براءت میں چونکہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا ذکر خیر تھا اس لیے منا سب ہوا کہ آیات براءت کوکوئی دوسرا شخص پڑھ کر سنائے۔
(عمدة القاري: 3/292)
4۔
حج کی فرضیت نویں سال ہوئی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس سال حج نہیں فرمایا جبکہ فریضہ حج جلد ادا کرنا مطلوب ہے۔
آپ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو حج کے لیے روانہ فرمایا۔
شارحین نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ عرب کے ہاں ایک بری رسم تھی کہ وہ اپنی مطلب برآری کے لیے مہینوں کو آگے پیچھے کر دیتے تھے جسے قرآن کریم نے نسئی سے تعبیر کیا ہے، اس فعل شنیع کی وجہ سے ایام حج اپنی مقرر ہ جگہ سے آگے پیچھے جاتے۔
جس سال حج فرض ہوا اس وقت بھی ایسی ہی صورت تھی کہ حج اپنے خاص مہینے میں ادا نہیں ہوا تھا۔
دسویں حج ٹھیک اپنے مہینوں میں آگیا جس کی وضاحت آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مختلف خطبات میں فرمائی، اس لیے آپ نے نویں سال حج کرنے کی بجائے دسویں سال یہ فریضہ ادا فرمایا تاکہ یہ اپنے ایام میں ادا ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ جن فرد گزاشتوں کی اصلاح ناممکن یا دشوار ہو ان میں مسامحت سے بھی کام لیا جا سکتا ہے، کیونکہ جن لوگوں نے ہجرت کے نویں سال حج کیا ان کا حج یقیناً معتبر ہوا ہے، کسی کو بھی اس کی قضا کا حکم نہیں دیا گیا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 369
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1622
1622. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ حجۃالوداع سے قبل رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک سال امیر حج بنایا۔ انھوں نے مجھے دسویں ذوالحجہ چند آدمیوں کے ہمراہ لوگوں میں یہ منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ اس سال کے بعد نہ کوئی مشرک حج کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص کعبہ کا طواف کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1622]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو سورہ براءت کا اعلان کرنے کے لیے ہمارے پیچھے روانہ کیا۔
وہ بھی ہمارے ساتھ اعلان کرتے تھے کہ آئندہ سال کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 369)
چنانچہ آئندہ سال حجۃ الوداع کے موقع پر کوئی مشرک حج کرنے کے لیے نہیں آیا تھا۔
(صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3177) (2)
دور جاہلیت میں قریش نے یہ بدعت ایجاد کی کہ باہر سے آنے والا شخص اپنے کپڑوں میں طواف نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی قریشی کے کپڑے لے کر طواف کرے (اس طرح وہ نذرانے وصول کرتے)
اور کسی کے لیے ایسا ناممکن ہو تو وہ ننگا ہی طواف کر لے۔
اگر کوئی اپنے کپڑوں میں طواف کر لیتا تو اسے لامحالہ وہ کپڑے پھینکنے پڑتے۔
اسلام نے ان تمام بدعات کا خاتمہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی قریش کی بیت اللہ پر اجارہ داری بھی ختم ہو گئی۔
(3)
اس سے ایک فقہی مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ طواف کرتے وقت اتنا لباس ضروری ہے جتنا نماز کے لیے ضروری ہے۔
(فتح الباري: 610/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1622
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3177
3177. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے بھی حضرت ابو بکر ؓ نے ان لوگوں کے ساتھ روانہ کیا جنھوں نےمنیٰ کے مقام پر قربانی کے دن یہ اعلان کیاتھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور کوئی شخص ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا اور حج اکبر کا دن دسویں ذی الحجہ کا دن ہے۔ اسے حج اکبر اس لیے کہا گیا کہ لوگ عمرے کو حج اصغر کہنے لگے تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اس سال مشرکین سے جو عہد وپیمان لیا تھا اسے واپس کردیا اور دوسرے سال حجۃ الوداع میں جب نبی کریم ﷺ نے حج کیا تو کوئی مشرک شریک نہ ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3177]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج اکبرحج ہی کانام ہے اور عوام جو مشہور ہے کہ حج اکبر وہ حج ہوتا ہے جس میں عرفے کا دن جمعے کو آئے، یہ بات زبان زد خاص وعام ہے حدیث سے ثابت نہیں۔
2۔
امام بخاری ؒکا مقصد یہ ہے کہ گر عہد واپس کرنا ہوتو پہلے اطلاع دینی چاہیے کہ آئندہ سے ہماراتمہارا معادہ ختم ہے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اچانک حملہ کردیاجائے۔
3۔
حضرت ابوبکر ؓ امیرحج تھے۔
انھوں نے مشرکین کے عہد کو ختم کرنے کے لیے باضابطہ منادی کرائی کہ ہمارا تم سے کوئی عہد وپیمان نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3177
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4363
4363. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو حجۃ الوداع سے پہلے جس حج کا میر بنا کر بھیجا تھا، اس میں حضرت ابوبکر ؓ نے مجھے کئی آدمیوں کے ہمراہ قربانی کے دن یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے کے لیے نہ آئے اور نہ کوئی شخص بیت اللہ کا ننگا طواف کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4363]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ہجرت کے نویں سال حج کے لیے بھیجا تاکہ خود بھی حج کریں اور لوگوں کو حج کے احکام سنائیں، چنانچہ آپ نے حج کے موقع پر اعلان کرایا کہ کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔
اس سے پہلے لوگ ننگ دھڑنگ طواف کرتے تھے اوراس رسم بد کو ختم کرنا ضروری تھا۔
2۔
اس حج میں حضرت ابوبکر ؓ کے ہمراہ تین سوصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کے ہمراہ بیس اونٹ بھیجے تھے۔
3۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حجۃ الوداع سے پہلے حج فرض ہوچکا تھا اور حضرت ابوبکر ؓ نے حج فرض ہی ادا کیا تھا۔
(فتح الباري: 103/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4363
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4655
4655. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت ابوبکر ؓ نے اس حج میں (جس میں وہ امیر حج تھے) نحر کے دن اعلان کرنے والوں میں بھیجا کہ وہ منٰی میں اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو پیچھے سے بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اعلان براءت کریں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ حضرت علی ؓ نے بھی ہمارے ساتھ نحر کے دن منٰی میں موجود لوگوں میں اعلان براءت کیا، نیز یہ کہ آئندہ سال کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ ہو کر اس کا طواف ہی کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4655]
حدیث حاشیہ: 1۔
عربوں میں یہ رسم تھی کہ اعلان براءت خود سر براہ مملکت کرتا یا اس کا کوئی قریبی آدمی یہ فریضہ سر انجام دیتا۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اس کام کے لیے روانہ فرمایا۔
حضرت ابو بکر ؓ نے ان کے ساتھ تعاون کے لیے دوسرے حضرات بھی روانہ کیے جن میں حضرت ابوہریرہ ؓ کا ذکر اس روایت میں موجود ہے۔
ان کے علاوہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے نام بھی دوسری روایات میں ملتے ہیں۔
(فتح الباري: 404/8) 2۔
ایک روایت کے مطابق جب حضرت علی ؓ اعلان کرتے کرتے تھک جاتے تو حضرت ابو بکر ؓ اعلان کرتے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3091) 3۔
حضرت علی ؓ نے جواعلان براءت کیا اس کی اہم دفاعت چار تھیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔
جس کافر کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ صلح ہے وہ مقرر مدت تک بحال رہے گا۔
جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہے، اس دوران میں وہ مسلمان ہو جائیں تو وہ جنت میں داخل ہوں گے یا پھر یہاں سے کہیں اور چلے جائیں۔
اس کے بعد مشرک اور مسلمان
(حج میں) جمع نہ ہوں گے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3092) ان دفعات کا مطلب یہ تھا کہ اس دوران میں وہ مسلمان ہو جائیں یا پھر مسلمانوں کے خلاف اپنی سازشیں ختم کردیں بصورت دیگر ان کے خلاف اعلان جنگ ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4655
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4657
4657. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جس حج میں حضرت ابوبکر ؓ کو حجۃ الوداع سے پہلے امیر حج بنا کر بھیجا تھا، اس میں انہوں (حضرت ابوبکر ؓ) نے مجھے چند لوگوں میں روانہ کیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کریں: ”اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔“ (راوی حدیث) حضرت حمید، سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث کی بنا پر کہا کرتے تھے کہ نحر کا دن حج اکبر کا دن ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4657]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کے مطابق دس ذی الحجہ کو حج اکبر یعنی قربانی کے دن یہ اعلان پہلے سیدنا ابو بکر ؓ نے منیٰ کے مقام پر کیا۔
پھر مقامی روایات کے مطابق حضرت على ؓ نے یہی اعلان کیا۔
2۔
مشرکین کی کئی قسمیں تھیں جن مشرکین سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ صلح نہیں تھا چار ماہ کی مہلت دی گئی اس میں بتایا گیا کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لیے تیار ہیں یا یہ ملک چھوڑ کر کہیں اور جانا چاہتے ہیں یا اسلام لانا چاہتے ہیں؟ اگر وہ اسلام لے آئیں تو ان کے لیے دنیا و آخرت کے اعتبار سے بہتر ہو گا۔
اس دفعہ میں وہ مشرک قبائل بھی شامل تھے جو صلح کا معاہدہ تو کر لیتے تھے مگر صلح کی شرائط کچھ ایسی طے کرتے کہ ان کے لیے فتنے اور عہد توڑنے کی گنجائش باقی رہتی۔
یعنی ایسے قبائل جن کی طرف سے مسلمانوں کو عہد شکنی یا فتنہ انگیزی کا خطرہ تھا ان کا عہد بھی اس اعلان براءت کے ذریعے سے ختم کردیا گیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اگر آپ کو کسی قوم سے عہد شکنی کا خطرہ ہو تو برابری کی سطح پر ان کا معاہدہ ان کی طرف پھینک دو۔
" (الأنفال: 58/8)
البتہ صاف دل سے معاہدہ کرنے والے مشرک قبائل کو کچھ رعایت دی گئی جس کی وضاحت ہم کر آئے ہیں۔
3۔
اس حدیث کے آخر میں حج اکبر کے دن کے متعلق وضاحت ہے کہ وہ قربانی کا دن ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حج اکبر کے دن کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ قربانی کا دن ہے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3088)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4657