سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
54. باب في الرُّخْصَةِ في الصَّلاَةِ عَلَيْهِ:
مقروض پر نماز ادا کرنے کی اجازت کا بیان
حدیث نمبر: 2630
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا عَلَى الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ إِلا وأَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِهِ، فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا، فَلْأُدْعَ لَهُ، فَأَنَا مَوْلَاهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا، فَلِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: ضَيَاعًا: يَعْنِي: عِيَالًا. وَقَالَ: فَلْأُدْعَ لَهُ، يَعْنِي: ادْعُونِي لَهُ أَقْضِ عَنْهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، روئے زمین پر جو بھی مومن ہے میں اس کے سب سے زیادہ قریب ہوں (یعنی اس کا والی اور ذمے دار ہوں)، پس جس شخص نے کوئی قرض یا اولاد چھوڑی میں اس کے لئے پکارا جاؤں، میں اس کا ذمہ دار ہوں اور جو کوئی مال چھوڑ کر جائے تو وہ مال اس کے وارثین کا ہے جو باحیات ہوں۔“
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «ضَيَاعًا» سے مراد بچے ہیں اور «فَلْأُدْعَ لَهُ» سے مراد ہے کہ مجھے بلایا جائے تاکہ میں اس کا قرض ادا کروں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2636]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2298]، [مسلم 1619]، [ترمذي 1069]، [نسائي 1959]، [ابن ماجه 2415]، [أبويعلی 5948]، [ابن حبان 3063]
وضاحت: (تشریح حدیث 2629)
بخاری و مسلم اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ اوائلِ اسلام میں جب مال کم تھا کوئی قرض دار فوت ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز نہ پڑھتے۔
صحابہ کرام سے فرماتے: ”تم نماز پڑھ لو۔
“ پھر جب الله تعالیٰ نے فتوحات کا دروازہ کھولا اور مال ہاتھ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ”جو کوئی مسلمان قرض دار مرے میں اس کا قرضہ ادا کروں گا، اور بے سہارا بچے چھوڑے ان کی پرورش کا ذمہ بھی لوں گا۔
“ اور قربان جایئے ایسے نبیٔ رحمتِ مجسم، پیکرِ لطف و عنایت کے کہ جو مال چھوڑ جاوے وہ تو وارثوں کا ہے، اور جو قرض چھوڑ جاوے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادا کریں۔
( «اَللّٰهُمَّ آتِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدًا الْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُوْدَا»)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست اپنے شہریوں کی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، حتیٰ کہ اگر اس کا کوئی مسلمان شہری مقروض حالت میں فوت ہوگیا، اور قرض کی ادائیگی کے لئے کوئی ترکہ نہ چھوڑ گیا ہو، اور کوئی عزیز رشتے دار ادائیگیٔ قرض کی ضمانت نہ دے، تو اس صورت میں اس کا قرض اسلامی ریاست کے بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔
اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امّت کے معذوروں، مجبوروں اور قرض داروں کے ساتھ محبت و شفقت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں کتنے مہربان، ہمدرد اور غم خوار تھے۔
سربراہانِ مملکت کو اپنی رعایا کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔
(مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح