سنن دارمي
من كتاب السير
سیر کے مسائل
19. باب في حَفْرِ الْخَنْدَقِ:
خندق کھودنے کا بیان
حدیث نمبر: 2492
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُلُ مَعَنَا التُّرَابَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ، وَقَدْ"وَارَى التُّرَابُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ"، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَأَنْزِلَنَّ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا إِنَّ الْأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا وَيَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جنگِ احزاب (خندق) کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مٹی ڈھوتے تھے اور مٹی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی چھپ گئی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اشعار گنگناتے جاتے تھے:
(یعنی ”اے الله! اگر تیری ہدایت نہ ہوتی تو ہم کبھی سیدھا راستہ نہ پاتے، نہ صدقہ کر سکتے، اور نہ نماز پڑھتے، اب تو اے اللہ ہمارے دلوں کو سکون دے، اور دشمن سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔
دشمنوں نے ہمارے اوپر زیادتی کی، جب بھی وہ ہم کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ہم انکار کرتے ہیں“)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اشعار بآواز بلند پڑھ رہے تھے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2499]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2836]، [مسلم 1803]، [أبويعلی 1716]
وضاحت: (تشریح احادیث 2490 سے 2492)
ان اشعار کا ترجمہ مولانا وحید الزماں رحمہ اللہ نے اشعار ہی میں اس طرح کیا ہے:
تو ہدایت گر نہ ہوتا تو کہاں ملتی نجات
کیسے پڑھتے ہم نمازیں کیسے دیتے ہم زكاة
اب اتار ہم پر تسلی اے شیر عالی صفات
پاؤں جما دے ہمارے، دے لڑائی میں ثبات
بے سبب ہم پے یہ کافر ظلم سے چڑھ آئے ہیں
جب وہ بہکائیں ہمیں سنتے نہیں ہم ان کی بات
حدیث میں ذکر کردہ آخری الفاظ «إِنَّ الْاُوْلَىٰ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا» کا مطلب یہ ہے کہ یا الله! دشمنوں نے خواہ مخواہ ہمارے خلاف قدم اٹھایا اور ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے، اس لئے مجبوراً ہم کو ان کے جواب میں میدان میں آنا پڑا۔
اس سے ظاہر ہے کہ اسلامی جنگ مدافعانہ ہوتی ہے، جس کا مقصد فتنہ و فساد کو فرو کر کے امن و امان کی فضا پیدا کرنا ہوتا ہے۔
جو لوگ اسلام پر قتل و غارت گری کا الزام لگاتے ہیں وہ حق سے سراسر نا واقفیت کا ثبوت دیتے ہیں۔
(راز رحمہ اللہ)
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور رحمت و شفقت ثابت ہوتی ہے کہ دوسروں کو کام میں لگا کر خود چین سے بیٹھ نہیں گئے بلکہ خندق میں کدال اور پچھاوڑا چلاتے، مٹی ڈھوتے اور جسدِ مبارک غبار آلود ہو جاتا، نیز کام کے وقت اسلامی رجزیہ اشعار پڑھنا بھی اس حدیث سے ثابت ہوا، اور بآواز بلند اشعار پڑھنا بھی ثابت ہوا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: