Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
5. بَابُ: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} ، الْعُرْفُ الْمَعْرُوفُ:
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! معافی اختیار کر اور نیک کاموں کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے منہ موڑیو «العرف» ، «المعروف» کے معنی میں ہے جس کے معنی نیک کاموں کے ہیں۔
حدیث نمبر: 4644
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: أَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذَ الْعَفْوَ مِنْ أَخْلَاقِ النَّاسِ أَوْ كَمَا قَالَ.
اور عبداللہ بن براد نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کے اخلاق ٹھیک کرنے کے لیے درگزر اختیار کریں یا کچھ ایسا ہی کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4644 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4644  
حدیث حاشیہ:
غرض امام بخاری ؒ کی یہ ہے کہ عفو سے آیت میں قصور کی معافی کرنا، خطا سے در گزر کرنا مراد ہے اور یہ آیت حسن اخلاق سے متعلق ہے۔
امام جعفر صادق ؒ سے منقول ہے کہ قرآن پاک میں کوئی آیت اس آیت کی طرح جامع اخلاق نہیں ہے لیکن بعضوں نے اس آیت کی یوں تفسیر کی ہے کہ ﴿خُذِ العفوَ﴾ سے یہ مراد ہے کہ جو کچھ مال ان کے ضروری اخراجات سے بچ رہے وہ لے لے اور یہ حکم زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے کا ہے۔
طبری اور ابن مردویہ نے حضرت جابر ؓ سے اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اسی سے نکالا۔
جب یہ آیت اتری تو آنحضرت ﷺ نے حضرت جبریل ؑ سے اس کا مطلب پوچھا، انہوں نے کہا میں جا کر پرورد گار سے پوچھتا ہوں، پھر لوٹ کر آئے کہنے لگے تمہارا پرورد گار تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ جو کوئی تم سے ناطہ کاٹے تم اس سے جوڑو اور جو کوئی تم کو محروم کرے تم اس کو دو اور جو کوئی تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4644   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4644  
حدیث حاشیہ:

اس آیت میں (عَفو)
کے متعلق دوآراء ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
ابن عباس ؓ کا مؤقف ہے کہ اس سے مراد لوگوں کے وہ مال ہیں جو ان کی ضروریات سے زائد ہوں، انھیں لینے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے اور یہ حکم زکاۃ کے احکام اترنے سے پہلے کا ہے۔
۔
حضرت ابن زبیر ؓ کا موقف ہے کہ اس سے مراد معاف کردینا ہے کہ لوگوں کے اخلاق واعمال کی جستجو کرنے کی بجائے انھیں معاف کردیا کریں جیسا کہ درج بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے۔
علامہ ابن جریرطبری ؒ نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ اخلاق، خلق کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ ملکہ ہے جس کے باعث افعال آسانی سے صادر ہوں۔
جعفر صادق ؒ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں لوگوں کے مکارم اخلاق بیان کرنے کے بارے میں اس سے جامع کوئی آیت نہیں ہے۔

اصول اخلاق تین ہیں:
عقلی، شہوی اور غضبی۔
اور ہرخلق کا کمال امرمتوسط ہے، خلق عقلی کا متوسط حکمت ہے۔
اس سے امر بالمعروف پیدا ہوتا ہے۔
شہوی کا متوسط عفت ہے۔
اس سے اخذ عفو پیدا ہوتا ہے اور قوت غضبی کا متوسط شجاعت ہے۔
اس سے جاہلوں سے اعراض پیدا ہوتا ہے۔
(عمدة القاري: 625/12)

حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبریل ؑ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ مجھے علم نہیں، البتہ میں اللہ تعالیٰ سے دریافت کر کے اس کا مطلب بتا سکتا ہوں، پھر انھوں نے بتایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم کرے، آپ اسے معاف کردیں اور جو آپ کو کچھ نہ دے آپ اس پر بخشش کریں اور جو آپ سے قطعہ تعلقی کرے آپ اس سے بھی صلح رحمی کریں۔
(فتح الباري: 388/8)
الغرض یہ آیت اخلاق فاضلہ پر مشتمل ایک جامع ہدایت نامہ ہےجس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے سید الانبیاء ؑ کی تربیت کرکے آپ کو تمام اولین وآخریں میں خلق عظیم کے خطاب سے نوازا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بے شک آپ عمدہ اخلاق پر فائز ہیں۔
(القلم: 4/68)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4644   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4787  
´عفو و درگزر کرنے اور انتقام نہ لینے کا بیان۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اللہ کے فرمان «خذ العفو» عفو کو اختیار کرو کی تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کے اخلاق میں سے عفو کو اختیار کریں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4787]
فوائد ومسائل:
معافی اور درگزرانتہائی عزیمت کا عمل ہے کہ انسان دل سے دوسرے کو معاف کر دے اور معاملے کو بھول جائے۔
کمزور ایمان و عمل کے آدمی سے ایسا ہونا بہت نادر ہوتا ہے، اس لیے اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو اس کا خاص حکم ارشاد فرمایا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4787