سنن دارمي
من كتاب الجهاد
کتاب جہاد کے بارے میں
28. باب الْعُذْرِ في التَّخَلُّفِ عَنِ الْجِهَادِ:
جہاد سے عذر کے سبب پیچھے رہ جانے کا بیان
حدیث نمبر: 2457
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا فَجَاءَ بِكَتِفٍ فَكَتَبَهَا. وَشَكَا ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ ضَرَارَتَهُ، فَنَزَلَتْ: لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیتِ شریفہ: «﴿لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ ........... الخ﴾» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا اور وہ کندھے کی چوڑی ہڈی لے کر حاضر ہوئے اور اس آیت کو لکھ لیا، پھر سیدنا عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے شکایت کی تو پھر پوری آیت نازل ہوئی۔ (آیت: سورہ نساء: 95/4)۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2464]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2831]، [مسلم 1898]، [أبويعلی 1725]
وضاحت: (تشریح احادیث 2455 سے 2457)
یہ آیت: «﴿لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾» اس طرح نازل ہوئی، یعنی جہاد سے بیٹھے رہ جانے والے، اور جہاد کرنے والے فضیلت میں ایک دوسرے کے برابر نہیں ہو سکتے۔
اس پر سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے حسرت سے کہا: ہم تو پھر بڑے گھاٹے میں رہیں گے، کیونکہ وہ نابینا تھے اور جہاد میں نہیں جا سکتے تھے۔
تب پھر یہ آیت استثناء کے ساتھ یوں نازل ہوئی: «﴿لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ﴾ [النساء: 95] » اور اس سے لنگڑے، اندھے، اپاہج لوگوں کو نکال دیا کیونکہ وہ معذور ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: یہ دلیل ہے کہ معذورین سے جہاد معاف ہے، لیکن ان کو مجاہدین کا ثواب نہیں بلکہ نیک نیتی اور ثواب کی امید کا ثواب ملے گا، بشرطیکہ وہ نیتِ صالحہ رکھتے ہوں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد اور نیتِ جہاد قیامت تک کے لیے باقی ہے۔
“ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جہاد فرضِ عین نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے، اور ہمیشہ سے فرضِ کفایہ ہی رہا ہے۔
اس حدیث میں ہڈی پر لکھنے کا تذکرہ ہے، یہ اس لئے کہ اس زمانے میں کاغذ زیادہ نہیں تھا اس لئے ہڈی، چمڑے اور دوسری چیزوں پر لکھا جاتا تھا جو سالہا سال تک باقی رہتا تھا۔
اس آیت و حدیث سے نابینا وغیرہ معذورین سے استثنیٰ ہو گیا، اسی طرح جس دور میں بھی، جیسے کہ آج کل ہے، شرائطِ جہاد پورے نہ ہوں اس دور کے اہلِ اسلام بھی معذور ہی شمار ہوں گے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه