سنن دارمي
من كتاب الجهاد
کتاب جہاد کے بارے میں
11. باب في الذي يَسْهَرُ في سَبِيلِ اللَّهِ حَارِساً:
اللہ کی راہ میں جاگنے والے پہرہ دار کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2437
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِير، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَيْحٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الصَّبَّاحِ مُحَمَّدِ بْنِ شُمَيْر، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَسَمِعَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ يَقُولُ: "حُرِّمَتِ النَّارُ عَلَى عَيْنٍ سَهِرَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَحُرِّمَتِ النَّارُ عَلَى عَيْنٍ دَمَعَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ". قَالَ: وَقَالَ الثَّالِثَةَ، فَنَسِيتُهَا. قَالَ أَبُو شُرَيْحٍ: سَمِعْتُ مَنْ يَقُولُ ذَاكَ"حُرِّمَتِ النَّارُ عَلَى عَيْنٍ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ، أَوْ عَيْنٍ فُقِئَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے کہ انہوں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”حرام ہے دوزخ پر وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگے، اور حرام ہے دوزخ پر وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کی خشیت (خوف) سے اشکبار ہو جائے“ (یعنی آنسوں سے بھر جائے)، سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری آنکھ کا بھی تذکرہ کیا لیکن میں اسے بھول گیا۔ ابوشریح نے کہا: میں نے اس راوی سے سنا جس نے تیسری آنکھ کا ذکر کیا اور وہ یہ ہے: ”اللہ تعالیٰ نے حرام کر دی ہے دوزخ ایسی آنکھ کے لئے جو اللہ کے محارم کے دیکھنے سے بچی رہے“ (یعنی فواحش و منکرات نہ دیکھے یا ایسی آنکھ جو اللہ عزوجل کے راستے میں پھوڑ دی گئی (یعنی ضائع ہوگئی)۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2445]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [نسائي 3117]، [نسائي فى الكبرىٰ 4325]، [ابن أبى شيبه 350/5]، [الحاكم 83/2]، [أبويعلی 4346]
وضاحت: (تشریح حدیث 2436)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کے راستے میں جاگ کر پہرہ دے وہ جہنم میں نہیں جائے گا، اسی طرح اللہ کے ڈر سے رونے اور گڑگڑانے والا بھی جہنم میں نہیں جائے گا، حرام چیزوں کے دیکھنے سے اپنی نگاہیں جھکانے والا بھی، اور جس کی آنکھ فی سبیل اللہ ضائع ہوئی وہ شخص بھی جہنم کی آگ سے دور رہے گا، اس آنکھ پر جہنم کی آگ حرام ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آنکھ جہنم میں نہیں گئی تو وہ آدمی خود بھی جہنم میں نہیں جائے گا کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایسے آدمی کی آنکھ تو جنت میں جائے اور اس کا سارا جسم جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور یہ اطلاق الجزء و ارادة الکل کے قبیل سے ہے، یعنی کبھی جزء بولا جائے اس کا کل مراد ہوتا ہے، اور کبھی کل بول کر اس کا جزء مراد ہوتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد