Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ: {قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ کہہ دیں کہ اے انسانو! بیشک میں اللہ کا سچا رسول ہوں، تم سب کی طرف اسی اللہ کا جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی جلاتا اور وہی مارتا ہے، سو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے امی رسول و نبی پر جو خود ایمان رکھتا ہے اللہ اور اس کی باتوں پر اور اس کی پیروی کرتے رہو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ“۔
حدیث نمبر: 4640
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُوسَى بْنُ هَارُونَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ: كَانَتْ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ مُحَاوَرَةٌ، فَأَغْضَبَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ، فَانْصَرَفَ عَنْهُ عُمَرُ مُغْضَبًا، فَاتَّبَعَهُ أَبُو بَكْرٍ يَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَهُ، فَلَمْ يَفْعَلْ، حَتَّى أَغْلَقَ بَابَهُ فِي وَجْهِهِ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا صَاحِبُكُمْ هَذَا فَقَدْ غَامَرَ"، قَالَ: وَنَدِمَ عُمَرُ عَلَى مَا كَانَ مِنْهُ، فَأَقْبَلَ حَتَّى سَلَّمَ وَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَصَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخَبَرَ، قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: وَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ، يَقُولُ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِي؟ هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِي؟" إِنِّي قُلْتُ:" يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا سورة الأعراف آية 158، فَقُلْتُمْ: كَذَبْتَ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقْتَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ غَامَرَ: سَبَقَ بِالْخَيْرِ.
ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن اور موسیٰ بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے بسر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان کچھ بحث سی ہو گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر غصہ ہو گئے اور ان کے پاس سے آنے لگے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو گئے، معافی مانگتے ہوئے۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معاف نہیں کیا اور (گھر پہنچ کر) اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ اب ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم لوگ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے یہ صاحب (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ) لڑ آئے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے طرز عمل پر نادم ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور سلام کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ بہت ناراض ہوئے۔ ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار یہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! واقعی میری ہی زیادتی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ مجھے میرے ساتھی سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تم لوگ میرے ساتھی کو مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ جب میں نے کہا تھا کہ اے انسانو! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کی طرف، تو تم لوگوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، اس وقت ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں۔ ابوعبداللہ نے کہا «غامر» کے معنی حدیث میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھلائی میں سبقت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4640 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4640  
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ ابو بکر ؓ سب سے پہلے ایمان لائے تو ان کی قدامت اسلام اور میری رفاقت کا خیال رکھو، ان کو رنجیدہ نہ کرو۔
اس حدیث سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بڑی فضیلت نکلی۔
فی الوقع اسلام میں ان کا بہت ہی بڑا مقام ہے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4640   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4640  
حدیث حاشیہ:

اگرچہ لغوی طور پر غَامَر کے معنی جھگڑے میں داخل ہونا ہے لیکن امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی بھلائی میں سبقت کرنے والا ہیں۔
چونکہ حضرت ابوبکر ؓ کا جھگڑا خیر و بھلائی سے متعلق تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس کے معنی سابق بالخیر سے کہے ہیں۔
یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں:
حضرت ابوبکر ؓ نے معافی مانگنے میں سبقت کی ہے، اس اعتبار سے وہ عمر فاروق ؓ پر سبقت لے گئے۔

بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ غَامَر کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں اگرچہ جمہور محدثین سے یہ معنی منقول نہیں ہیں۔
واللہ اعلم۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو شخص بہت سے کمالات وفضائل کا مالک ہو اگر اس سے کوئی لغزش ہوجائے تو اسے نظر انداز کردینا چاہیے، چنانچہ حضرت ابوبکرؓ اپنی زیادتی کا اقرار بھی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ حضرت عمر ؓ پر اپنی ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔
اس بنا پر اگربزرگوں سے کوئی غلطی ہوجائے تو خوا مخواہ ان کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، ممکن ہے کہ بزرگوں کی بہت ساری نیکیاں بھی ہوں اور ان نیکیوں کی بدولت اللہ کے ہاں ان کا بہت بڑا مقام ہو کہ لغزش کی طرف اللہ تعالیٰ توجہ ہی نہ دے بلکہ طعن و تشنیع کرنے والوں کا مواخذہ ہوجائے، اس لیے کہا جاتا ہے:
خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے متعلق وہی الفاظ استعمال کیے ہیں جو الفاظ آیت کریمہ میں آپ کے متعلق استعمال ہوئے ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4640   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3661  
3661. حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ اپنی چادر کاایک کنارہ اٹھائے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ کا گھٹناننگا ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارے دوست کسی سے لڑکر آئے ہیں۔ پھر حضرت ابو بکر نے سلام کیااور کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے اور ابن خطاب ؓ کے درمیان کسی بات پر کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ میں نے جلدی سے انھیں سخت سست کہہ دیا۔ پھر مجھے ندامت ہوئی۔ میں نے ان سے معذرت کی اور معافی کا سوال کیا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ اب میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر !اللہ تجھے معاف فرمائے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ کہا۔ پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر ؓ شرمندہ ہوئے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر پر آئے اور دریافت کیا کہ ابو بکر یہاں موجود ہیں؟گھر والوں نے جواب دیا: نہیں۔ پھر حضرت عمر نبی کریم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3661]
حدیث حاشیہ:
ابویعلیٰ کی روایت میں ہے کہ جب عمر ؓ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے منہ پھیرلیا۔
دوسری طرف سے آئے تو ادھر سے بھی منہ پھیر لیا۔
سامنے بیٹھے تو ادھر سے بھی منہ پھیر لیا آخر انہوں نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا:
ابوبکر نے تم سے معذرت کی اور تم نے قبول نہ کی۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ابوبکر صدیق ؓ کی فضیلت تمام صحابہ پر نکلی۔
حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ان کا خطاب صدیق آسمان سے اترا۔
اس حدیث سے شیعہ حضرات کو سبق لینا چاہیے۔
جب آپ حضرت عمر ؓ پر حضرت ابوبکر ؓ کے لیے اتنے غصہ ہوئے حالانکہ پہلے زیادتی ابوبکر ہی کی تھی مگرجب انہوں نے معافی چاہی تو حضرت عمر ؓ کو فوراً معاف کرنا چاہیے تھا۔
پھر شیعہ حضرات کس منہ سے آنحضرت ﷺ کے یار غار کو برا بھلا کہتے ہیں۔
ان لوگوں کو خدا سے ڈرنا چاہیے۔
دیکھا گیا ہے کہ حضرات شیخین پر تبرا کرنے والوں کا برا حشر ہوا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3661   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3661  
3661. حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ اپنی چادر کاایک کنارہ اٹھائے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ کا گھٹناننگا ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارے دوست کسی سے لڑکر آئے ہیں۔ پھر حضرت ابو بکر نے سلام کیااور کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے اور ابن خطاب ؓ کے درمیان کسی بات پر کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ میں نے جلدی سے انھیں سخت سست کہہ دیا۔ پھر مجھے ندامت ہوئی۔ میں نے ان سے معذرت کی اور معافی کا سوال کیا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ اب میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر !اللہ تجھے معاف فرمائے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ کہا۔ پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر ؓ شرمندہ ہوئے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر پر آئے اور دریافت کیا کہ ابو بکر یہاں موجود ہیں؟گھر والوں نے جواب دیا: نہیں۔ پھر حضرت عمر نبی کریم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3661]
حدیث حاشیہ:

فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ بار باران سے منہ پھیرتے رہے آخر انھوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس زندگی کا کیا فائدہ جس میں آپ ناراض ہوں کیا وجہ ہے؟آپ نے فرمایا:
ابو بکر تم سے بار بار معافی مانگتا رہا لیکن تم نے معاف نہیں کیا۔
حضرت عمر ؓ نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!انھوں نے جتنی مرتبہ مجھ سے معذرت کی ہے میں اتنی ہی مرتبہ ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعاکرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعد کسی کو پیدا نہیں فرمایا جو ابوبکر ؓ سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔
حضرت ابو بکر ؓ نے کہا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میرے بھی ان کے متعلق یہی جذبات ہیں۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 285/12)

حضرت ابو بکر ؓ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر فضیلت حاصل ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فاضل کو چاہیے وہ اپنے سے افضل کو ناراض نہ کرے۔

کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنا جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب ممدوح کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔
اگر اس تعریف سے اس کے اندرخود پسندی پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتو اس سے بچنا چاہیے4۔
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ انسان کو اس کی مرضی کے خلاف فعل پر غصہ آنا طبعی چیز ہے لیکن دین میں پختہ انسان اپنی ناراضی جلدی ختم کردیتا ہے اور غیر نبی معصوم نہیں ہوتا اگرچہ فضیلت میں انتہا کو پہنچ جائے۔
(فتح الباري: 33/7، 34)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3661