سنن دارمي
من كتاب الجهاد
کتاب جہاد کے بارے میں
4. باب أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ:
سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟
حدیث نمبر: 2430
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: "إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ". قَالَ: قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟. قَالَ:"ثُمَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ". قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟. قَالَ:"ثُمَّ حَجٌّ مَبْرُورٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لانا“، عرض کیا گیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنا“، عرض کیا گیا: پھر کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: ”حج مبرور۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2438]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 26، 1519]، [مسلم 83]، [ابن حبان 151، 4598]
وضاحت: (تشریح حدیث 2429)
حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں ریا کاری اور گناہ کا مطلق دخل نہ ہو، وہ خالص رضائے الٰہی کے لئے ہو، اس کے بعد حاجی کی پہلی حالت بدل کر اب سراپا نیکیوں کا مجسمہ بن جائے، بلاشبہ اسی کا حج مبرور ہے، اور ایسے ہی حج کے لئے کہا گیا: «اَلْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةَ. (أو كما قال صلى اللّٰه عليه وسلم)» یعنی حج مبرور کا بدلہ جنّت کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمالِ صالحہ کے ثواب میں تفاوت ہے، کوئی عمل اچھا اور کوئی بہت اچھا ہوتا ہے، یہاں سب سے اچھا عمل اللہ اور رسول پر ایمان لانا ہے، ایمان سے مراد اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار، اس کی وحدانیت و ربانیت کا اعتراف، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی و رسول اور برگزیدہ بندے ہونے کا اعتراف، اور اللہ و رسول کی اطاعت و فرمابرداری اور نافرمانی سے گریز، یہ صحیح ایمان، اور ایمان کے تقاضے ہیں اور سب سے اچھا عمل یہ ہے۔
اس کے بعد راہِ خدا میں جہاد کرنا سب اعمال سے افضل ہے، اور پھر حج مبرور سب سے اچھا عمل ہے، یہاں جہاد کو حج پر مقدم کیا گیا حالانکہ حج اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک رکن ہے، اور جہاد ان ارکان میں داخل نہیں ہے، اس لئے کہ جہاد کا نفع اپنی ذات سے ہٹ کر بے شمار لوگوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے، لیکن حج صرف حاجی کی ذات تک محدود ہوتا ہے۔
سب سے اچھے عمل کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف ادوار میں سوالات کئے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف جوابات دیئے ہیں، وہ پوچھنے والے کے احوال کے پیشِ نظر دیئے گئے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه