سنن دارمي
من كتاب الديات
دیت کے مسائل
25. باب لاَ يُؤْخَذُ أَحَدٌ بِجِنَايَةِ غَيْرِهِ:
مجرم کے بدلے کسی اور سے مواخذہ نہ ہو گا
حدیث نمبر: 2426
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادٍ، حَدَّثَنَا إِيَادٌ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَبِي:"ابْنُكَ هَذَا؟"، فَقَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ. قَالَ:"حَقًّا؟". قَالَ:"أَشْهَدُ بِهِ". قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا مِنْ ثَبَتِ شَبَهِي فِي أَبِي وَمِنْ حَلِفِ أَبِي عَلَي، فَقَالَ: "إِنَّ ابْنَكَ هَذَا لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ". قَالَ: وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164.
سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد سے فرمایا: ”کیا یہ تمہارا بیٹا ہے؟“ عرض کیا: جی، کعبہ کے رب کی قسم، فرمایا: ”سچ کہتے ہو؟“ عرض کیا: جی ہاں سچ میں میں اس کی شہادت دیتا ہوں (کہ یہ میرا بیٹا ہے)، ابورمثہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری والد صاحب سے مشابہت اور میرے والد کی قسمیہ شہادت پر مسکرا کر ہنس پڑے اور فرمایا: ”بیشک تمہارا یہ بیٹا نہ تمہارے جرم کا ذمہ دار ہوگا اور نہ تم اس کے جرم کے ذمہ دار ہوگے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ترجمہ: (کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھائے گا) (سورة الانعام: 164/6 و إسراء: 15/17)۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2434]»
تخریج اس حدیث کی اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2425)
سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ کا نام حبیب بن حیان ہے، دوسرے نام بھی ذکر کئے گئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات حجۃ الوداع میں ہوئی، اس روایت میں ہے کہ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ساتھ آئے اور انہوں نے اپنے الفاظ میں روایت کیا، پہلی روایت میں ہے کہ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کے ساتھ آئے اور قصہ بیان کیا، بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قصاص و عتاب میں مجرم کے بدلے میں کسی اور کو نہیں پکڑا جائے گا، حتیٰ کہ باپ کے بدلے میں بیٹا، اور بیٹے کے بدلے میں باپ سے بھی مواخذہ نہ ہوگا، اگر کہا جائے کہ شارع نے پھر قتلِ خطا اور قسامت کی صورت میں دیت کا بار عصبہ پر کیوں ڈالا ہے، تو اس کا جواب ہے کہ یہ بوجھ نہیں بلکہ تعاون و امداد ہے جو بھائی چارے اور برادری کی بنیاد پر بتقاضائے طبیعت بوقتِ ضرورت کی جاتی ہے، اور برادری کے افراد بخوشی ادا کرتے ہیں کیونکہ ہر ایک اپنے قریبی عزیز کی غمگساری میں برضا و رغبت شریک ہونا فخر سمجھتا ہے، اور انسانی تمدن و معاشرت اسی کا تقاضا کرتا ہے کہ آج اگر کسی پر افتاد پڑ گئی ہے تو اس کا سہارا بنے، کل وہ بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے۔
(مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح